ذوالفقار انجم اور سی پی او کی ڈی جی پی ایچ اے کے جھانسے میں آکر عدالتی احکامات کی خلاف ورزی قابلِ مذمت(عوامی حلقے)

“سی پی او ملتان تشہیری بورڈ کی تنصیب: سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی”

ملتان (بیٹھک انوسٹی گیشن سیل) روزنامہ بیٹھک میں سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی آصف روف کی ایما پر سٹی پولیس آفیسر ملتان صادق علی ڈوگر کی سرکاری رہائش گاہ پر تشہری بورڈ نصب کرنے اور اس سلسلے میں کئی دہائی پرانے پیپل کے درخت کو کاٹنے کی پیر کے روز چھپنے والی خبر سرکاری محکموں اور عوامی حلقوں میں بڑے پیمانے پر زیر بحث رہی۔عوامی حلقوں نے مفاد عامہ میں خبر شائع کرنے پر روزنامہ بیٹھک کی تحقیقاتی صحافت کو سراہا اور توقع ظاہر کی کہ اخبار کی انتظامیہ اپنی تحقیقاتی رپورٹنگ کے ذریعے آئیندہ بھی مفاد عامہ کو ترجیح دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ٹیکس اور گیس چوری کے الزامات کا سامنا کرنے والے معروف صنعت کار چوہدری ذوالفقار انجم کو یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف جا کر پل موج دریا پر بیوٹیفیکیشن کے بدلے اپنی فوڈ کمپنی کی تشہیر کرتا کیونکہ اب وہ بورڈ آف انوسٹمنٹ جیسے قومی سطح کے بورڈ کا ممبر ہےان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ٹیکس اور گیس چوری کے الزامات کا سامنا کرنے والے معروف صنعت کار چوہدری ذوالفقار انجم کو چاہیے تھا کہ جب اسے اس بات کا پتہ چلا تھا کہ ماضی میں بطور اسسٹنٹ کمشنر دیپالپور ہندو اقاف کی اربوں روپے مالیت کی سرکاری زمین کو ایک پرائیویٹ شخص کے نام منتقل کرنے کے الزام میں ایف آئی اے کی جانب سے درج مقدمے کے نامزد ملزم اور ڈائریکٹر جنرل پی ایچ اے آصف روف نے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کے ساتھ پانچ سالہ معاہدہ کیا ہے تو اسے چاہیے تھا وہ اینٹی کرپشن میں آصف روف کے خلاف مقدمے کے اندراج کی درخواست دیتا مگر ایسا نہ ہوا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ماضی میں ٹیکس اور گیس چوری کے الزامات کا سامنا کرنے والا معروف صنعت کار چوہدری ذوالفقار انجم اور ڈی جی پی ایچ اے ملے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح ماضی میں ٹیکس اور گیس چوری کے الزامات کا سامنا کرنے والے معروف صنعت کار چوہدری ذوالفقار انجم کو ماضی میں کرپشن کے مقدمے کا سامنا کرنے والے ڈی جی پی ایچ اے آصف روف کی بات نہیں ماننی چاہیے تھی اسی طرح سٹی پولیس آفیسر صادق علی ڈوگر کو بھی آصف روف کے جھانسے میں نہیں آنا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ سٹی پولیس آفیسر اپنے گھر میں لگائے گئے پبلسٹی بورڈ کو خود اتروا دے اس سے قبل کہ کسی متعلقہ انتظامی افسر کا ضمیر جاگ جائے اور وہ اس بورڈ کو ہٹانے کے احکامات جاری کر دے۔ان کا کہنا تھاکہ بورڈ لگانے سے بھی بڑا جرم اور غیرقانونی کام کیا گیا ہے وہ کئی دہائی پرانے گھنے شیشم کے درخت کی کٹائی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ درخت کاٹنے کی تحقیقات کی جائیں اور ڈی جی پی ایچ اے آصف روف سمیت دیگر ذمہ داران کے خلاف سخت سے سخت کاروائی عمل میں لائی جائے۔ دوسری جانب سرکاری دفاتر میں سی پی او ملتان کی سرکاری رہائش گاہ پر تشہیری بورڈ کی تنصیب سارا دن زیر بحث رہی اور اس بات پر حیرت کا اظہار کیا جاتا رہا کہ سی پی او جیسے اہم عہدے پر تعینات افسر کو آخر بورڈ لگوانے کی ضرورت کیوں پڑ گئی ذرائع کے مطابق ایس پی چوک جیسے شہر کے اہم، مصروف اور معروف ترین چوک پر شتہیری بورڈ کی تنصیب کسی بھی اوٹ ڈور پبلسٹی کے کاروبار سے جڑے فرد یا فرم کی پہلی ترجیح یا خواہش ہوتی ہے۔واضح رہے کہ دو ہزار سولہ میں کراچی میں شہید ملت روڈ کے گرین بیلٹ پر لگے 70 گھنے درختوں کو کاٹنے پر اس وقت کے کمشنر کراچی آصف حیدر شاہ کے حکم پر ایک بلڈر کے خلاف مقدمے کا اندراج سندھ گورنمنٹ لوکل ایکٹ 2013 کے تحت فیروزآباد تھانے میں کیا گیا تھا۔ بلڈر نے روڈ پر واقع رہائشی پروجیکٹ کی خوبصورتی درختوں میں چھپنے کے باعث درخت کاٹے گئے تھے۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں