“ڈاکٹر مختار کی یونیورسٹی معاملات سے سبکدوشی کی درخواست”
ٕ
اسلام آباد (سپیشل رپورٹر) چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن اور ایکٹنگ ریکٹر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد ڈاکٹر مختار تو کمبل چھوڑنا چاہتا ہے لیکن اب کمبل ڈاکٹر مختار کو نہیں چھوڑ رہا، ڈاکٹر مختار نے صدر مملکت (جو کہ یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں) سے تحریری طور پر مزید بطور ریکٹر کام کرنے سے معذرت کر لی ہے اور عبوری ریکٹر شپ سے سبکدوشی کی درخواست بھجوا دی۔ایوان صدر میں موجود ذرائع کے مطابق ڈاکٹر مختار جو کچھ عرصہ پہلے تک یونیورسٹی کا مستقل ریکٹر لگنے کی تگ و دو میں تھے نے اچانک یونیورسٹی معاملات سے خود کو الگ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس ضمن میں باقاعدہ طور پر صدر مملکت کو درخواست بھیج دی ہے کہ وہ بطور ریکٹر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی مزید کام نہیں کر سکتے۔
ڈاکٹر مختار کے قریبی ذرائع کے مطابق ڈاکٹر مختار کا خیال تھا کہ سعودی ماہر تعلیم کی یونیورسٹی صدر تعیناتی کے بدلے میں وہ سعودیوں سے مالی مسائل کا شکار یونیورسٹی کے لئے مالی امداد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور بعد ازاں اپنی مستقل ریکٹر تعیناتی بھی کروانے میں کامیاب رہیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا اور انہیں ایک طرف یونیورسٹی میں موجود بااثر دھڑوں کے بیچ کھینچا تانی اور دوسری جانب یونیورسٹی کو درپیش مالی معاملات سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تو انہیں پہلی دفعہ احساس ہوا کہ یونیورسٹی کو چلانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر مختار کی آنکھیں بطور عبوری ریکٹر اساتذہ اور ملازمین کو پہلی تنخواہ دینے کے موقع پر ہی باہر آ گئیں تھیں اور جب روزنامہ بیٹھک نے اس بات کی نشاندھی کی کہ یونیورسٹی کے پاس تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں ہیں۔
تو فوری طور پر بطور چیئرمین ایچ ای سی انہوں نے ایچ ای سی کی جانب سے یونیورسٹی کے لئے ایڈوانس فنڈنگ حاصل کی اور یوں ملازمین اور اساتذہ کو تنخواہیں مل سکیں انہوں نے بتایا کہ اس مرتبہ پھر یونیورسٹی کے پاس تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں اور ڈاکٹر مختار کو ٹھنڈے پسینے آ رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر مختار نے یونیورسٹی کے ایک نائب صدر کو بھی کھری کھری سنائیں کہ اس نے انہیں اس ‘گندے کام’ میں پھنسا دیا ہے یونیورسٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر مختار یونیورسٹی کے ناکام ترین ریکٹر کے طور پر سامنے آئے ہیں جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مختار کی ہٹ دھرمی اور انتظامی معاملات میں ناکامی سے یونیورسٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہےان کا کہنا تھا کہ اب جب تنخواہیں دینے کا وقت آیا ہے تو ڈاکٹر مختار بھاگنے کے چکر میں ہےدوسری جانب تعلیمی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک شخص جو ایک یونیورسٹی بھی نہیں چلا سکتا اسے حکومت نے اتنے عرصے سے چیئرمین ایچ ای سی تعینات کر رکھا ہے یہاں تک کہ قوانین کو روندتے ہوئے اسے تیسری مرتبہ کے لئے چیئرمین بھی تعینات کر دیا گیا حالانکہ اس کی قابلیت ایک یونیورسٹی چلانے کی بھی نہیں ہےان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے انتظامی اور مالی معاملات میں بہتری کا صرف ایک رستہ رہ گیا ہے کہ قواعد و ضوابط کی پاسداری کرتے ہوئے معطل شدہ ریکٹر ڈاکٹر ثمینہ ملک کو بحال کیا جائے اور یونیورسٹی صدر کی تعیناتی کے لئے بنائی جانے والی کمیٹی میں ڈاکٹر مختار کی جگہ ڈاکٹر ثمینہ ملک کو شامل کر کے فوری طور پر سعودی صدر کی تعیناتی عمل میں لائی جائے اور سعودی صدر کے ذریعے سعودی عرب سے مالی امداد حاصل کر کے یونیورسٹی معاملات کو چلایا جائےان کا کہنا تھا کہ انتظامی عہدوں پر تعینات لوٹ مار گروپ کو فارغ کر کے بڑے فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔
جس سے مالی دباؤ کا خاتمہ ہو گا۔انہوں نے مزید بتایا کہ یونیورسٹی کو مالی مسائل سے نکالنے کے لئے سخت فیصلے لینے کی ضرورت ہے اور یونیورسٹی اساتذہ کی مدد سے پراجیکٹس کے ذریعے یونیورسٹی کے لئے وسائل پیدا کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے بتایا کہ اس وقت شارٹ ٹرم جرات مندانہ فیصلے ہی یونیورسٹی کو انتظامی اور مالی بحران سے نکال سکتے ہیں انہوں نے بتایا کہ اگر ڈاکٹر مختار اس بار بروقت تنخواہیں دینے میں ناکام رہے تو ان کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو جائے گی اور یونیورسٹی ملازمین اور اساتذہ تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے سڑکوں پر دکھائی دیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں تھوک کے حساب سے جو غیر قانونی بھرتیوں کا بازار گرم کیا گیا ہے ان کی تنخواہیں کون دے گا؟
یہ وہ سوال ہے جس نے یونیورسٹی کے خیر خواہوں کو پریشان کیا ہوا ہے۔ ان غیر قانونی اور من پسند بھرتیوں کی وجہ سے یونیورسٹی مستقبل میں بھی قانونی بحران کا شکار رہے گے جبکہ ڈاکٹر مختار سکون کی نیند سوئیں گےروزنامہ بیٹھک نے اس سلسلے میں جب ڈاکٹر مختار کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو وہ رابطے میں نہ آ سکے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں