“ملتان ایل پی جی کنٹینر حادثہ: سات جانوں کا ضیاع اور درجنوں زخمی”
ملتان (کرائم رپورٹر) ملتان میں ایل پی جی کنٹینر پھٹنے سے سات قیمتی جانیں لقمہ اجل بن گٸیں اور درجنوں لوگ زخمی بھی ہوٸے ۔لگ بھگ 100 گھروں کو شدید نقصان پہنچا ۔ہمیشہ کی طرح آج بھی حادثہ پیش آنے کے بعد ضلعی و صوباٸی انتظامیہ حرکت میں نظر آ رہی ہے ،تحقیقات ہو رہی ہیں اور حسب معمول غیر ذمہ داری کے مرتکب افراد کے خلاف سخت سے سخت کارواٸی کی صداٸیں بلند ہو رہی ہیں ۔ ڈراٸیور وغیرہ پر ایف آٸی آر بھی درج ہو چکی ہے۔
، موت بانٹنے والے یہ کنٹینرز گٸیس لاتے کہاں سے ہیں ،کبھی کسی نے اس پر غور کیا ؟ یہ گٸیس غیر قانونی طور پر تونسہ سے جاتی ہے جس میں سول ڈیفس، بی ایم پی ، دیوان کمپنی کے کچھ ریٹاٸرڈ و حاضر سروس ملازمین، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے افسران اور کچھ سیاسی شخصیات ملوث ہیں، تونسہ سے تقریباً چالیس سے پچاس کنٹینرز روزانہ کی بنیاد پر گٸیس چوری کر کے نکلتے ہیں ۔ایک کٹینر میں 140 سلنڈرز ہوتے ہیں اور ایک سلنڈر میں 14 کلو ،ایک کنٹینر میں اوسط 2000 کلو گرام گٸیس ہوتی ہے یعنی روزانہ پچاس کنٹینرز تونسہ سے ایک لاکھ کلوگرام گٸیس چوری کر کے لے جاتے ہیں جس کی مالیت کروڑوں میں بنتی ہے ،مطلب یومیہ کروڑوں کی کرپشن۔
کرپشن بھی اور عوام کی جان کو خطرات بھی۔ مگر اوپر لیول پر مکمل خاموشی اور چشم پوشی کر رکھی ہے، یہ سلنڈرز لوکل میٹیریل سے بنے ہوٸے ہیں اور کنٹینرز بھی انتہاٸی بوسیدہ حالت میں ہوتے ہیں۔ خدانخواستہ ایک کنٹینر کے پھٹنے سے پورا تونسہ غرق ہو سکتا ہے ،حادثے روز روز نہیں ہوتے لیکن جب ہوتے ہیں تو پھر بہت بڑی بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور مقدمات ڈراٸیوروں پر درج ہوتے ہیں ۔ غفلت کے مرتکب ارباب اختیار کو پھر سے نٸے حادثوں کی راہ ہموار کرنے کیلیے کلین چٹ مل جاتی ہے۔
، تونسہ کے صحافی محمد یوسف خان کے مطابق انہوں نے اگست 2024 میں ایک کنٹینر کو زبردستی روک کر تھانہ سٹی تونسہ میں بند کرایا تھا، کنٹینر کا مالک وحید نامی شخص مجھے بھاری رقم کی آفر بھی کرتا رہا تھا کہ بھاٸی مٹی پاٶ کچھ نہیں ہونا ہمارے خلاف ۔میں وہ جگہ بھی دیکھ آیا تھا جہاں سے انکی غیرقانونی فلنگ ہو رہی ہے ۔سول ڈیفنس اور دیگر کنسرن اداروں کو بھی مطلع کیا تھا، کنٹینر تقریباً دس یوم تھانے میں بند رہا تھا لیکن کوٸی ایک بھی افسر یا اہلکار چیکنگ کیلیے تشریف نہیں لایا تھا کیونکہ انہوں نے حادثہ پیش آنے کے بعد آنا ہوتا ہے پہلے نہیں ۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں