“مقامی کاٹن مارکیٹ میں روئی کے بھاؤ کا ملا جلا رجحان”
ملتان (رپورٹ نسیم عثمان)مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے کے دوران روئی کے بھاؤ میں مجموعی طور پر ملا جلا رجحان برقرار رہا۔ کاروبار محدود ٹیکسٹائل اسپینرز درآمدی روئی میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں کیوں کہ انہیں EFS کی سہولت کے علاوہ بہتر کوالٹی کی روئی کم قیمت پر حاصل ہورہی ہے۔ علاوہ ازیں وافر تعداد میں کاٹن یارن اور کپڑا بھی درآمد ہورہا ہے جبکہ مقامی کاٹن پر 18 فیصد سیلز ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ FPCCI کی زراعت کی ٹاکس فورس اور SIFC درامدی روئی پر حاصل ہونے والی روئی سے EFS کی سہولت واپس لینے یا درآمدی ڈیوٹی آن کرنے یا مقامی روئی پر عائد سیلس ٹیکس ختم کر کے LEVEL PLAYING FIELD محیا کرنے کی سفارشات دی ہیں گزشتہ دن ECC اقصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس منعقد کیا گیا تھا اس میں امید لگائی گئی تھی کے اس مسئلہ کا حل نکالا جائے لیکن کوئی مثبت حل نظر نہیں آیا۔ پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن نے یکم مارچ تک ملک میں روئی کی پیداوار کے اعدادوشمار جاری کئے ہیں جس کے مطابق اس عرصے تک ملک میں روئی کی پیداوار 55 لاکھ 10 ہزار گانٹھوں کی ہوئی ہے جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کی پیداوار 83 لاکھ 49 ہزار گانٹھوں کے نسبت 28 لاکھ 39 ہزار گانٹھیں کم ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی اور ملتان میں کپاس کی بحالی کے لئے 2 کاٹن کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا کراچی میں PCCC اور BETTER COTTON کی جانب سے اور ملتان میں PCCC اور COTTON CONNECT کی جانب سے کانفرنسوں میں کپاس کی اگیتی بوائی وغیرہ کی تجاویز اور مشورے دئے گئے تھے علاوہ ازیں حکومت کی جانب سے خصوصی طور پر صوبہ پنجاب کی وزارت ذراعت گاہے گاہے کپاس کے کاشکاروں کی آگاہی کے سلسلے میں اجلاس منعقد کر رہی ہے آگاہی کے سلسلے میں SEMINARS بھی منعقد کئے جارہے ہیں۔ کئی علاقوں میں جزوعی طور پر اگیتی کپاس کی کاشت شروع ہونے کی اطلاعات آرہی ہیں۔
صوبہ پنجاب میں اگیتی کاشت کے لئے 10 لاکھ ایکڑ ارافی رکھی گئی ہے۔ صوبہ سندھ میں کوالٹی اور ادائیگی کے مطابق روئی کا فی من بھاؤ 17500 تا 18000 روپے۔صوبہ پنجاب میں روئی کا بھاؤ 17800 تا 18000 روپے رہا جبکہ پھٹی تقریبا ختم ہوچکی ہے۔بلوچستان میں روئی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 200 روپے کی کمی کرکے 17800 روپے کے بھاؤ پر بند کیا۔ کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن میں روئی کا ملا جلا بھاؤ ہے نیویارک کاٹن کے وعدے کا بھاؤ فی پاؤنڈ 66.50 تا 67.50 امریکن سینٹ کے درمیان چل رہا ہے۔ USDA کی ہفتہ وار برآمدی اور فروخت رپورٹ کے مطابق سال 25-2024 کیلئے 1 لاکھ 88 ہزار 900 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔ترکی 49 ہزار 700 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔پاکستان 44 ہزار 300 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔
ویت نام 30 ہزار 800 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔سال 26-2025 کیلئے 14 ہزار 900 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔ملائيشيا 13 ہزار 200 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔جاپان 1 ہزار 200 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔برآمدات 2 لاکھ 21 ہزار 100 گانٹھوں کی ہوئی۔ویت نام 58 ہزار 900 گانٹھیں درآمد کرکے سرفہرست رہا۔پاکستان 36 ہزار 400 گانٹھیں درآمد کرکے دوسرے نمبر پر رہا۔چین 26 ہزار 500 گانٹھیں درآمد کرکے تیسرے نمبر پر رہا۔دریں اثنا ملتان میں پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی (PCCC) اور کاٹن کونیکٹ کے اشتراک سے منعقدہ “پہلی قومی کانفرنس برائے بحالی کپاس” میں زرعی ماہرین، حکومتی نمائندوں اور کسان تنظیموں کے رہنماؤں نے کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا۔ کانفرنس کے دوران مقررین نے تحقیق و ترقی کے عمل کو مستحکم کرنے اور جدید سائنسی بنیادوں پر کپاس کی بحالی کے لیے مشترکہ اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔کانفرنس میں شریک زرعی ماہرین و مقررین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جدید پیداواری صلاحیت کے حامل بیجوں اور کلائمٹ سمارٹ کپاس کی اقسام کی تیاری وقت کی اہم ضرورت ہے، لیکن تحقیق و ترقی کے لیے مالی وسائل کی کمی اس عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ ماہرین نے کپاس کی گرتی ہوئی پیداوار کے نتیجے میں قومی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کے پیش نظر تحقیقاتی اداروں کی مستحکم فنڈنگ کو ناگزیر قرار دیا، تاکہ جدید سائنسی تحقیق کے ذریعے کپاس کی بحالی ممکن بنائی جا سکے۔کانفرنس کے دوران تحقیقاتی اداروں کو درپیش مالی مشکلات پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔
مقررین نے اس امر پر زور دیا کہ پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی (PCCC)، جو ملک میں کپاس کی تحقیق و ترقی کا سب سے بڑا ادارہ ہے، کو درپیش مالی بحران فوری حل طلب مسئلہ ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی جانب سے کاٹن سیس کے اربوں روپے کے بقایاجات کی عدم ادائیگی کے باعث اس ادارے کی کارکردگی شدید متاثر ہو چکی ہے، جس کے نتیجے میں جدید بیجوں کی تیاری، نئی اقسام کی دریافت اور کپاس کے کیڑوں و بیماریوں سے تحفظ کے لیے ضروری تحقیق جمود کا شکار ہے۔ کپاس کی بحالی تحقیق و ترقی کے عمل پر منحصر ہے، لیکن بدقسمتی سے گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی جیسے اہم قومی تحقیقی ادارے کو مسلسل نظر انداز کیا گیا، جس کے باعث تحقیق و ترقی کا عمل جمود کا شکار ہو گیا اور کپاس کی پیداوار میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جو کبھی دنیا میں کپاس پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک تھا، اب تنزلی کا شکار ہو کر ساتویں نمبر پر پہنچ چکا ہے۔کانفرنس میں شریک ماہرین نے حکومت اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا کہ کپاس کی تحقیق و ترقی کے لیے طویل المدتی پالیسی مرتب کی جائے اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کی جانب سے کاٹن سیس کے واجبات کی فوری ادائیگی کو یقینی بنایا جائے، تاکہ ملک میں کپاس کے شعبے کو استحکام حاصل ہو اور زرعی معیشت کو درپیش چیلنجز کا مؤثر حل نکالا جا سکے۔ کپاس کی بحالی کے حوالے سے انتہائی اہم قومی کانفرنس میں ملک کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر، ٹیکسٹائل انڈسٹری کے نمائندگان کی عدم موجودگی مایوس کن رہی۔ کپاس کی سب سے بڑی صارف ہونے کے باوجود، ٹیکسٹائل انڈسٹری کی اس کانفرنس میں عدم شرکت نے شرکاء کے لیے کئی سوالات کو جنم دیا۔ماہرین نے حکومت اور پالیسی سازوں پر زور دیا کہ وہ کپاس کی تحقیق و ترقی کے عمل کو سنجیدگی سے لیں اور PCCC کے مالی بحران کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات کریں تاکہ پاکستان کی زرعی معیشت کو مزید نقصان سے بچایا جا سکے۔علاوہ ازیں ٹیکسٹائل کی صنعت جی ایس پی اسٹیٹس پر نظر ثانی کی خبروں سے پریشانی کا شکار،جرمنی میں حالیہ ٹیکسٹائل میلے میں پرکشش آرڈر حاصل کرنے کے بعد مزید ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدی کھیپ یورپ بھیجنے کی امید میں ٹیکسٹائل ملز نے بیرون ملک سے بڑی مقدار میں ڈیوٹی فری کپاس اور سوتی دھاگے خرید رکھے ہیں۔مالی سال 26-2025 کی پہلی ششماہی میں ڈیوٹی فری کپاس اور دھاگے کی درآمدات 2 ارب ڈالر کے قریب پہنچ گئیں۔18 فیصد سیلز ٹیکس کے نفاذ سے، پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار مقامی کاٹن انڈسٹری یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس اسٹیٹس پر نظر ثانی کی خبروں سے پریشان ہے۔
یورپی یونین نے 2014 میں پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دیا تھا، جس کے نتیجے میں رعایتی محصولات کی وجہ سے یورپی یونین کو پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدات میں 108 فیصد اضافہ ہوگیا تھا۔اکتوبر 2023 میں یورپی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کو یورپی برآمدات پر ڈیوٹی فری یا کم از کم ڈیوٹی سے لطف اندوز ہونے کے لیے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کو مزید 4 سال کے لیے 2027 تک بڑھانے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔تاہم یورپی یونین کے وفد کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اقتصادی بلاک جون میں اس حیثیت پر نظر ثانی کرے گا، جس سے کپاس کی صنعت میں خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔یورپی یونین کے مقامی نمائندے کے ساتھ ایک متعلقہ تاجر کی بات چیت میں انکشاف ہوا کہ اگرچہ جی ایس پی میں 31 دسمبر 2027 تک توسیع کردی گئی ہے، لیکن اس سے بہت پہلے نئے قواعد و ضوابط نافذ ہونے کا امکان ہے۔جی ایس پی مانیٹرنگ ایک مسلسل عمل ہے، یورپی یونین کے نمائندے نے 2 فروری کو ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جاری عمل کے حصے کے طور پر 2025 کے وسط میں انٹر سروسز مانیٹرنگ مشن متوقع ہے۔
ٹیکسٹائل ماہرین کا مطابق جی ایس پی پلس اسٹیٹس پر کسی بھی منفی نظرثانی سے یہ شعبہ مزید بحران کا شکار ہوسکتا ہے، کیوں کہ جرمنی میں حالیہ ٹیکسٹائل میلے میں پرکشش آرڈر حاصل کرنے کے بعد مزید ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدی کھیپ یورپ بھیجنے کی امید میں ٹیکسٹائل ملز نے بیرون ملک سے بڑی مقدار میں ڈیوٹی فری کپاس اور سوتی دھاگے خرید رکھے ہیں۔چوں کہ کپاس اور سوتی دھاگے کی درآمد ڈیوٹی فری ہے، جب کہ مقامی کپاس پر 18 فیصد ٹیکس ہے، مل مالکان اس سال کاشت کاروں، جننگ اور اسپننگ سیکٹرز کی لاگت پر بیرون ملک سے بڑی مقدار میں اجناس درآمد کر رہے ہیں۔ادارہ برائے شماریات پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 25 کی پہلی ششماہی میں ملک نے کپاس اور دھاگے کی درآمدات پر ریکارڈ ایک ارب 91 کروڑ ڈالر خرچ کیے، جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 61 کروڑ ڈالر زیادہ ہیں۔اطلاعات کے مطابق جنوری تا مارچ 2025 کے دوران قیمتی زرمبادلہ کی قیمت پر کپاس اور سوتی دھاگے کی بڑی کھیپ بھی متوقع ہے۔کاٹن جنرز فورم کے چیئرمین احسان الحق کا کہنا ہے کہ اگرچہ رواں سال کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار ہدف سے تقریباً 50 فیصد کم اور گزشتہ سال کی پیداوار سے 34 فیصد کم رہی ہے، تاہم جننگ فیکٹریوں میں کپاس کے اسٹاک میں اضافہ ہوا ہے، 31 جنوری تک جننگ فیکٹریوں کے پاس کپاس کی کم از کم 4 لاکھ 86 ہزار گانٹھیں پڑی ہیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں ایک لاکھ 14 ہزار گانٹھیں یا 31 فیصد زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل ملز نے رواں سیزن کے دوران مقامی جننگ فیکٹریوں سے اب تک صرف 49 لاکھ 78 ہزار گانٹھیں خریدی ہیں۔
، جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں ریکارڈ 27 لاکھ گانٹھیں یا 35 فیصد کم ہیں۔وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ رانا تنویر حسین نے انٹرنیشنل کاٹن ایڈوائزری کمیٹی (ICAC) کے وفد سے ملاقات کی۔ وفد کی قیادت ICAC کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، ایرک ٹریچٹنبرگ کر رہے تھے، اور اس میں کاٹن اور ٹیکسٹائل کے شعبوں کے اہم نمائندے شامل تھے۔ملاقات کے دوران وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ رانا تنویر حسین نے آئی سی اے سی کے وفد سے پاکستان کی کپاس کی پیداوار، تجارت اور ٹیکسٹائل کے شعبے کی ترقی پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے کپاس کی پائیدار پیداوار کی اہمیت پر زور دیا اور ICAC کے ساتھ اشتراک کے ذریعے مارکیٹ تک رسائی کو وسعت دی۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں