“ویسٹ منیجمنٹ کمپنی کی کرپشن اور ناکامی: شہریوں کی زندگی پر اثرات”

“ویسٹ منیجمنٹ کمپنی: ملتان کی صفائی کی صورتحال اور انتظامی ناکامیاں”

ملتان( بیٹھک انوسٹیگیشن سیل) ڈیرہ ویسٹ منیجمنٹ کمپنی (ڈی ڈبلیو ایم سی) کوڑا اٹھانے کی بجائے نوٹ کھانے والی مشین بن گئی۔ کمپنی انتظامیہ کمپنی کے قیام سے لیکر آج تک اپنے فرائض سرانجام دینے میں بری طرح ناکام جس کی وجہ سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔’
کمپنی میں موجود ذرائع کے مطابق کمپنی کے قیام سے قبل سالڈ ویسٹ کو جمع کرنے اور بعد ازاں اسے ٹھکانے لگانے کے معاملات لوکل گورنمنٹ کے سالڈ ویسٹ منیجمنٹ سیکشن کے ذمہ تھے تاہم سالڈ ویسٹ منیجمنٹ سسٹم کو ایک مربوط نظام میں لانے کے لئے سال 2014 میں کمپنیز آرڈیننس 1984 جسے اب کمپنیز ایکٹ 2017 کہا جاتا ہے کی سیکشن 42 کے تحت بہاولپور، فیصل آباد اور ملتان کے ساتھ ساتھ ڈیرہ غازیخان میں بھی ویسٹ منیجمنٹ کمپنی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ لوکل گورنمنٹ کے سالڈ ویسٹ منیجمنٹ سیکشن کے ملتان، بہاولپور اور فیصل آباد میں اثاثہ جات اور معاملات ویسٹ منیجمنٹ کمپنیز کو 27 مارچ 2014 کو سونپ دئیے گئے مگر ڈیرہ غازیخان میں ایسا نہ ہو سکا یوں ڈیرہ غازیخان میں کمپنی کا باقاعدہ قیام دو ستمبر 2020 میں عمل میں لایا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ کہ کمپنیز کے قیام کا بنیادی مقصد شہریوں کو پائیدار، موثر اور سستی ویسٹ منیجمنٹ سروسسز فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود سسٹم کے معیار کو بہتر کرنا تھا اور اس سلسلے میں ہر کمپنی کے لئے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے ممبران کی چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر (چیف ایگزیکٹو آفیسر) سمیت تعداد 13 رکھی گئی جن میں سے پانچ ایکس آفیشو ممبران، چار پرائیویٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے ممبران جبکہ چار ٹیکنیکل ایکسپرٹس بطور ممبران شامل کئے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) کا کام بورڈ سے منظور شدہ پالیسیوں اور لائحہ عمل پر عملدرآمد کرانا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ کمپنیز کے وسائل کا صحیح استعمال کیا جا رہا ہے مگر ایسا نہ ہو سکا اور کمپنی کا بورڈ خاص طور پر کمپنی ایم ڈی (سی ای او) اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں بری طرح ناکام رہے۔
جس کی وجہ سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کے نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا اور شہری کو صفائی جیسی اہم سہولت بھی فراہم نہ کی جا سکیانہوں نے بتایا کہ کمپنی جو کہ شہر کی صرف 17 یونین کونسلز سے کوڑا اکٹھا کرتی ہے کی سال 2020-21 میں ایک ٹن ویسٹ کی آپریشنل کاسٹ 2444 روپے تھی ۔
جو اگلے سال بڑھ کر 3391 روپے جبکہ اس سے اگلے سال اس سے بڑھ کر 3847 روپے ہو گئی۔ اسی طرح ایک ٹن ویسٹ کی ایڈمن کاسٹ سال 2020-21 میں 249 روپے تھی جو اگلے سال بڑھ کر 343 روپے جبکہ اس سے اگلے سال اس سے بڑھ کر چار سو سڑسٹھ روپے ہو گئی۔ انہوں نے بتایا کہ طرح ایک ٹن ویسٹ کی لیبر کاسٹ سال 2020-21 میں 1733 روپے تھی جو اگلے سال بڑھ کر 2540 روپے جبکہ اس سے اگلے سال اس سے بڑھ کر 2703 روپے ہو گئی۔
یوں مجموعی طور پر ایک ٹن ویسٹ پر اٹھنے والا خرچہ سال 2020-21 میں 2693 روپے، سال 2021-22 میں 3734 روپے اور سال 2022-23 میں 4315 ہو گیا۔ انہوں نے بتایا کہ مجموعی طور پر سال دو ہزار 2020-21 میں ایک سالڈ ویسٹ ورکر نے 126.769 ٹن سال 2021-22 میں 119.702 ٹن اور سال 2022-23 میں 141.071 ٹن کوڑا اکٹھا کیا انہوں نے بتایا کہ سال 2013-14 سے لیکر سال 2022-23 تک کمپنی کی جانب سے کوڑا اکٹھا کرنے اور اسے ٹھکانے لگانے کی مقدار میں تو کوئی خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا ۔
مگر اس کی آپریشنل، ایڈمنسٹریٹیو، لیبر اور مجموعی کاسٹ میں اضافے کا رحجان رہا۔انہوں نے بتایا کہ کرپشن، سیاسی مداخلت اور نااہلی وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ڈیرہ ویسٹ منیجمنٹ کمپنی اپنے قیام کے مقاصد سے بھٹک گئی اور شہر گندگی کے ابناروں سے بھر گیا۔
انہوں نے بتایا کہ کمپنی کی جانب سے صفائی کے مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے شہر کے اکثر علاقوں میں گندی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، گلیوں اور بازاروں میں لگے گندی کے ڈھیروں سے اٹھنے والی بدبو اور تعفن سے شہریوں کا سانس لینا تک محال ہو چکا ہے جبکہ گندگی کی وجہ سے شہری خاص طور پر بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں