نرسری کی زمین پر تجاوزات ،ڈویژن بھر میں محکموں کے سربراہان سے لیز یا کرایے پر دی جانیوالی پراپرٹیز کی تفصیلات طلب

نرسری زمین پر تجاوزات اور لیز پراپرٹیز کی تفصیلات کا مطالبہ

ملتان (بیٹھک انوسٹیگیشن سیل) ملتان کے معروف اور مصروف خانیوال روڈ پر تاریخی عید گاہ کے سامنے نرسری کے ٹھیکیدار کی جانب سے نرسری کی زمین پر تجاوزات قائم کر کے انہیں آگے کرائے پر دینے کا معاملہ سامنے آنے کے بعد کمشنر ملتان عامر کریم خان نے ڈویژن بھر کے محکموں کے سربراہوں کو ان تمام پراپرٹیز کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت جاری کر دی ہے جنہیں ان محکموں نے لیز یا کرائے پر دے رکھا ہے۔ روزنامہ بیٹھک سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈمن ڈائریکٹر واسا احسن بلال کا کہنا تھا کہ کمشنر کی جانب سے لکھا جانے والا خط واسا حکام کو موصول ہو چکا ہے ۔
جس میں ایک ہفتے کے اندر تمام پراپرٹیز کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم کمشنر ملتان کی جانب سے جاری کیا گیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ منیجنگ ڈائریکٹر واسا کے ذریعے وہ خط ان تک پہنچ چکا ہے اور انہوں نے متعلقہ عملے کو اس حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کا حکم جاری کر دیا ہےان کا کہنا تھا کہ اگر چہ نرسری تجاوزات کا معاملہ ان سے متعلق نہیں ہے تاہم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ حکم امتناعی واسا حکام کو تجاوزات کے خاتمے سے نہیں روکتا، ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے وہ کچھ کہنے سے قاصر ہیں کہ تجاوزات کیوں نہیں ختم کی جا رہیں کیونکہ یہ معاملہ ڈائریکٹر انجینئرنگ منعم سعید سے متعلق ہے ان کا کہنا تھا کہ نرسری کے ٹھیکیدار کی جانب سے ابتداء میں دی گئی بولی کی ایک تہائی رقم جو کہ 3 لاکھ 22 ہزار روپے بنتی ہے قبضے سے قبل واسا کو جمع کرا دی گئی تھی تاہم اس کے بعد واسا کو کوئی رقم جمع نہیں کرائی گئی۔
، ان کا کہنا تھا کہ یہ بات ان کے علم میں نہیں ہے کہ کمشنر نے واسا حکام کو نرسری سے متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ بریفنگ کے لئے جمعرات کے روز بلایا تھا اور اس بات میں بھی کوئی حقیقت نہیں ہے کہ انہوں (ڈائریکٹر ایڈمن احسن بلال) نے کہا ہے کہ وہ خود ریکارڈ لیکر جائیں گے اور کمشنر کو بریف کریں گے۔روزنامہ بیٹھک کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق نرسری کو لیز پر دینے کے لئے ریزرو پرائس کا تعین کرنے کے لئے اسسمنٹ کمیٹی کی میٹنگ 6 ستمبر 2023 کو منعقد ہوئی اور اس سلسلے میں پبلک نوٹس کی اخبارات میں اشاعت اور پیپرا ویب سائٹ پر اپ لوڈنگ 16 جنوری 2024 کو ہوئی جبکہ اوپن آکشن 30 جنوری 2024 کو ہوا جس کے لئے کال ڈیپازٹ 20 ہزار روپے مقرر کیا گیا تھا مجموعی طور نرسری دو کنال کی بتائی گئی اور بولی میں تین آکشنرز نے حصہ لیا سب سے زیادہ بولی فیضان قریشی ولد حفیظ احمد نے دی جو کہ ایک کنال سالانہ 4 لاکھ 83 ہزار تھی یوں کامیاب آکشنر نے مجموعی پر 9 لاکھ 66 ہزار سالانہ ادا کرنے تھے۔ مینجمنٹ ڈائریکٹر واسا کی جانب سے آکشن کی منظوری 10 فروری 2024 کو دی گئی اور 22 فروری کو واسا کی جانب سے ٹھیکیدار کو لیز اپروول لیٹر جاری کیا گیا جبکہ اس بات کی وضاحت کر دی گئی کہ زمین نرسری کے لئے دی جا رہی ہے ابتدائی طور پر لیز کی مدت ایک سال رکھی گئی جو کہ قبضے کے دن سے شروع ہونی تھی اور واسا نے 8 مارچ کو قبضہ ٹھیکیدار کے حوالے کیا۔
ٹھیکیدار نے دی جانے والی بولی کی ایک تہائی رقم واسا کو جمع کروانی تھی جو کہ 3 لاکھ 22 ہزار روپے بنتی تھی ٹھیکیدار نے جمع کرا دی تھی لیکن اس کے بعد الاٹی نے کرائے مد میں آج تک ایک روپیہ بھی جمع نہیں کروایا ہے جبکہ واسا کی جانب سے 22 فروری 2024 کو جاری کردہ ایک لیٹر کے مطابق 7 مارچ 2025 تک ٹھیکیدار نے 7 لاکھ 20 ہزار 600 روپے جمع کروانے تھے۔ واسا میں موجود ذرائع کے مطابق ایک مقامی اخبار کی نشان دہی اور اخبار کے صحافی کی جانب سے چیف منسٹر کمپلینٹ سیل کو ٹھیکیدار کی جانب سے مخلتف سٹالز بنا کر غیر قانونی طور انہیں آگے کرائے پر دینے اور تجاوزات قائم کرنے کے انکشاف کے بعد واسا حکام جو کہ ٹھیکیدار کی جانب سے کرایہ نہ دینے کے حوالے سے خاموش تھے کو 14 جنوری 2025 کو ٹھیکیدار کو نوٹس جاری کرنے پر مجبور کر دیا گیا جس میں ٹھیکیدار کو بقایا واجب الادا رقم کی ادائیگی کی ہدایت کی گئی جس کے خلاف ٹھیکیدار نے بقایا رقم کی ادائیگی کے تقاضے کے خلاف عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا اسی طرح واسا حکام نے ٹھیکیدار کو تجاوزات کے خود سے خاتمے کے لئے بھی ایک خط 11 فروری کو تحریر کیا مگر ٹھیکیدار تجاوزات ختم کرنے سے انکاری ہو گیا۔
انہوں نے بتایا کہ چونکہ ٹھیکیدار ایک ڈمی ہے اور حقیقت میں نرسری کے معاملات صحافت کی آڑ میں جرائم پیشہ عناصر چلا رہے ہیں جنہوں نے متعلقہ عملے کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں اور شکایت کنندہ کو چپ کرا دیا اور یوں معاملہ دبا دیا گیا انہوں نے بتایا کہ روزنامہ بیٹھک میں خبر چھپنے کے بعد یہ سارا معاملہ اعلیٰ حکام کے علم میں آ گیا اور صحافت کی آڑ میں جرائم پیشہ افراد میں کھلبلی مچ گئی ذرائع کے مطابق صحافت کی آڑ میں جرائم پیشہ لوگوں کا یہ گروہ اخبار میں مختلف محکموں کے افسران کے پورے پورے ایڈیشن شائع کرتا ہے اور نیچے کے عملے کو یہ تاثر دیتا ہے کہ اس کے ان کے افسران کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں لہذا ان کی کسی غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکت کے خلاف کاروائی کرنے نچلا عملہ باز رہے انہوں نے بتایا کہ اگر ایک مخصوص اخبار کے پچھلے کچھ عرصے کے شمارے اٹھا لئے جائیں تو ان میں صرف دو چیزوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ملے گا ۔
جن میں پہلی چیز افسران کی خوشامد پر مبنی ایڈیشنز اور انٹرویوز جن کا مقصد افسروں سے ان کے متعلقہ محکمے کے حوالے سے قانونی یا غیر قانونی طور پر فایدہ حاصل کرنا اور ان کے ماتحت عملے کو دباؤ میں رکھنا ہے جبکہ دوسری چیز جو پورے تواتر کے ساتھ جاری ہے وہ صحافتی اقدار کی دھجیاں اڑاتے اور ملکی قوانین کو پامال کرتے ہوئے گھٹیا اور بازاری انداز میں شرفاء یا ان سرکاری اہلکاروں کی پگڑیاں اچھالنا ہے تاکہ ان کی مجرمانہ حرکتوں کی نشان دہی کر سکے اور نہ ان کے حوالے سے بات کر سکے۔ انہوں نے بتایا کہ پریس کلب کا ایک عہدیدار ان تمام مجرمانہ کارروائیوں میں ان جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کرتا ہے اور اس کی ان کے ساتھ پارٹنر شپ ہے یہاں تک کہ پریس کلب کا یہ عہدیدار اس مقامی اخبار کے ذریعے اپنے مخالفین کی کردار کشی بھی کرواتا ہے اور انہیں بلیک میلنگ کے لئے بھی استعمال میں لاتا ہے انہوں نے بتایا کہ تحفظ اور سہولت کاری فراہم کرنے کے عوض پریس کلب کا یہ عہدیدار اپنا پورا حصہ وصول کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ جرائم پیشہ گروہ اسے رات کو تحفظ اور سہولت کاری کے لئے بلائے یا دن میں یہ بھاگم بھاگ پہنچ جاتا ہے اور موجودہ معاملے میں بھی بدھ کے روز یہ عہدیدار سارا دن ایک ٹانگ پر کھڑا رہا اور واسا حکام کو مجبور کر دیا کہ وہ تجاوزات کے خلاف کاروائی نہ کریں۔
انہوں نے بتایا کہ اس معاملے کے حوالے سے پریس کلب کے اس عہدیدار نے کمشنر عامر کریم خان کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا کیونکہ اسے لگتا ہے کہ کمشنر عامر کریم خان اس کے کرتوتوں سے بخوبی واقف ہے جس کی وجہ سے صحافت کی اڑ میں جرائم پیشہ عناصر کے اس گروہ نے بدھ کے روز پریس کلب کے اس عہدیدار کے بغیر کمشنر عامر کریم سے ملاقات کی اور انہیں تجاوزات کے خلاف کاروائی روکنے کی استدعا کی تاہم کمشنر عامر کریم خان نے واضح طور پر انہیں بتا دیا کہ نرسری کو آگے سب لیٹ کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی اور تجاوزات کو ہر صورت ختم کیا جائے گاانہوں نے بتایا کہ کمشنر عامر کریم خان نے صحافت کی آڑ میں جرائم پیشہ عناصر کی بار بار کی التجاؤں کے بعد جمعرات کے روز کے لئے واسا حکام کو تمام ریکارڈ کے ساتھ پیش ہونے کا حکم جاری کیا تاہم جمعرات کے روز کمشنر لودھراں چلے گئے اور یہ معاملہ لٹک گیا۔
واسا ذرائع کے مطابق منیجمنٹ ڈائریکٹر واسا خالد ضیاء نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے تجاوزات کے خلاف کاروائی روکنے کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ عدالت نے اس حوالے سے حکم امتناعی جاری کیا ہے انہوں نے کہا کہ ایم ڈی کے عہدے پر تعینات شخص کو غلط بیانی سے کام لینا زیب نہیں دیتا کیونکہ کوئی بھی عدالت تجاوزات کو ہٹانے کا حکم تو جاری کر سکتی ہے لیکن ان کو قائم رکھنے کے لیے حکم امتناعی جاری نہیں کر سکتی۔انہوں نے بتایا کہ ٹھیکیدار کینجانب سے تجاوزات قائم کرنے کے لئے نرسری کے نہ صرف جنگلے توڑے گئے سینکڑوں کلو لوہا بیچا گیا بلکہ نرسری میں موجود درخت کاٹ کر بیچ دئیے گئے اور جس مقصد کے لئے نرسری کی زمین حاصل کی گئی۔
اس مقصد کے لئے اسے استعمال میں ہی نہیں لایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ٹھیکیدار کو صرف ایک بار اس وقت دیکھا تھا جب نیلامی ہوئی تھی اس کے بعد ٹھیکیدار کبھی نہیں دکھائی دیا اور اس کی بجائے ایک مقامی اخبار کا چیف ایڈیٹر اور اس کا ایک قریبی عزیز ہی واسا حکام سے رابطے میں رہتے اور ان پر دھونس جماتے رہتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ تجاوزات کے خاتمے کا تنازع جب سے شروع ہوا ہے ٹھیکیدار ایک مرتبہ بھی کسی بھی فورم پر ظاہر نہیں ہوا واضح رہے کہ روزنامہ بیٹھک نے جب ان تجاوزات کے حوالے سے خبر شائع کی تو اخبار انتظامیہ کے خلاف گھٹیا اور نیچ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مقامی اخبار کی جانب سے غیر اخلاقی پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا جس کے حوالے سے بیٹھک انتظامہ نے قانونی چارہ جوئی کا عمل شروع کر دیا ہے۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں