کاٹن مارکیٹ:کاروباری حجم میں کمی،،ٹیکسٹائل و جننگ صنعت زبوں حالی کا شکار

“مقامی روئی: کپاس کے کاشتکاروں کی حالت اور حکومت کی ذمہ داری”

ملتان (رپورٹ نسسیم عثمان) مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے کے دوران روئی کے بھاؤ میں ملا جلا رجان رہا کاروبار کوالٹی اور پیمنٹ کنڈیشن کی شرط پر ہو رہا ہے گو کہ حجم بھی کم ہے لیکن ذرائع کے مطابق غیر رجسٹرڈ کاروبار بھی ہو رہا ہے فلحال جنرز کے پاس روئی کی تقریبا ساڑھے تین لاکھ گانٹھوں کا اسٹاک موجود ہے جنرز اظراب میں مبتلا ہیں دوسری جانب ٹیکسٹائل اسپینرز بھی مشکلات میں مبتلا ہیں APTMA اخباری اشتہارات کے زریعے حکومت سے مسلسل اپیلیں کر رہا ہے EFS کی سہولت مقامی روئی پر بھی مہیا کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ LEVEL PLAYING FIELD دینے کے درینہ مطالبہ کو بھی مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
علاوہ ازیں یارن اور کپڑا بھی وافر تعداد میں EFS کی سہولت کی وجہ سے درآمد ہو رہا ہے جس کی وجہ سے پورا ٹیکسٹائل سیکٹر بری طرح سے متاثر ہو رہا ہے APTMA کے کہنے کے مطابق 40 فیصد سے زیادہ ٹیکسٹائل ملز بند ہو چکے ہیں مزید کئی ملیں بند ہونے کی دھانے پر ہیں ان کے کہنے کے مطابق ملک کا ٹیکسٹائل سیکٹر تباہی کی طرف جا رہا ہے ذرائع حکومت پر بھی الزام لگا رہا ہے صنعت کی زبو حالی کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت کی ٹیکسٹائل سیکٹر اور جینگ کی صنعت میں کوئی دلچسپی نظر نہیں اتی ٹیکسٹائل و جننگ انڈسٹری کی زبو حالی کا منفی اثر کپاس کے کاشت پر پڑے گا۔نتیجتا کپاس کی کاشت پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے وہ زیادہ متاثر ہو سکتی ہے فلحال حکومت اس معاملے میں سنجیدگی نہیں دکھارہی تاخیر مزید نقصان دہ ہوگی حکومت کو دن بدن سنگین ہوتے جا رہے ہیں حالات کو سنجیدگی سے لینے چاہیے۔ حکومت کی جانب سے اگتی کاشت کے لیے کپاس کے کاشتکاروں کو ترغیب دی جا رہی ہے۔
سندھ کے ساحلی علاقوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق کئی علاقوں میں اگتی کپاس کاشت ہو رہی ہے پنجاب کے بھی کئی علاقوں میں اگتی کاشت کی اطلاعات ہیں۔صوبہ سندھ میں کوالٹی پیمنٹ کنڈیشن کے حساب سے روئی کا بھاؤ فی من 16000 تا 17500 روپے رہا۔صوبہ پنجاب میں روئی کا بھاؤ فی من 16500 تا 17500 روپے چل رہا ہے۔کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی سپارٹ ریٹ کمیٹی نے سپاٹ ریٹ فی من 17500 روپے کے بھاؤ پر مستحکم رکھا۔کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن کے بھاؤ میں ملا جلا رجان رہا۔ نیویارک کاٹن کے وعدے کا بھاؤ فی پاؤنڈ 66.50 تا 67.50 امریکن سینٹ کے درمیان چل رہا ہے۔ USDA کی ہفتہ وار برآمدی اور فروخت رپورٹ کے مطابق سال 25-2024 کیلئے 1 لاکھ 66 ہزار 900 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔ویت نام 43 ہزار گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔
.چین 31 ہزار 100 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔ترکی 26 ہزار 700 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔پاکستان 21 ہزار 200 گانٹھیں خرید کر چوتھے نمبر پر رہا۔سال 26-2025 کیلئے 32 ہزار 600 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔ترکی 13 ہزار 200 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔ہونڈوراس 8 ہزار 800 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔ویت نام 4 ہزار 800 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔برآمدات 2 لاکھ 67 ہزار 500 گانٹھوں کی ہوئی۔ویت نام 80 ہزار 300 گانٹھیں درآمد کرکے سرفہرست رہا۔پاکستان 52 ہزار 700 گانٹھیں درآمد کرکے دوسرے نمبر پر رہا۔انڈیا 25 ہزار گانٹھیں درآمد کرکے تیسرے نمبر پر رہا۔
پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (ایپٹما) اور برازیلی وفد نے کپاس کے شعبے میں تعاون پر تبادلہ خیال کیاٹیکسٹائل اور کپاس کی صنعتوں کے لیے ایک اہم پیشرفت میں، برازیلین کاٹن پروڈیوسرز ایسوسی ایشن (اے بی آر اے پی اے) نے مقامی کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے پاکستان کو مکمل تکنیکی تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔برازیلین کاٹن پروڈیوسرز ایسوسی ایشن، برازیلین کاٹن شیپرز ایسوسی ایشن، اور برازیلین ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ پروموشن ایجنسی کے نمائندوں پر مشتمل ایک اعلی سطحی برازیلی وفد نے کپاس کے شعبے میں تعاون اور سرمایہ کاری کے مواقع پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اے پی ٹی ایم اے) کے لاہور دفتر کا دورہ کیا۔دریں اثنا کپاس کی جدید پیداواری ٹیکنالوجی منافع بخش پیداوار میں اضافہ کا زریعہ ہے۔ معیاری بیجوں اور کپاس کی بہتر منجمنٹ کے بغیر پیداوار میں بہتری ممکن نہیں۔ سی سی آر آئی ملتان میں کپاس کی پیداواری ٹیکنالوجی سے متعلق ریفریشر کورس کے تربیتی شرکا سے زرعی ماہرین کا خطاب۔10 لاکھ ایکڑ پر اگتی کپاس کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ 31 مارچ تک کاشت کرنے پر پالی اعانت دی جارہی ہے۔
سہیل طلعت چیئرمین بحالی کاٹن۔علاوہ ازیں سربراہ شعبہ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان ساجد محمود نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کو اپنی کپاس کی صنعت کی بحالی کے لیے تحقیق و ترقی (R&D) میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ جدید بیجوں کی تیاری، جینیاتی طور پر ترمیم شدہ (GM) کپاس اور جدید زرعی ٹیکنالوجی جیسے ڈیجیٹل فارمنگ، جی پی ایس مشینری اور مشینی کٹائی کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سے پیداوار میں اضافہ اور لاگت میں کمی ممکن ہو سکے گی۔ان کا مذید کہنا تھا کہ آبپاشی کے جدید نظام، جیسے ڈرپ اور پائیوٹ آبپاشی، اپنانے سے پانی کی بچت ممکن ہوگی اور خشک سالی کے شکار علاقوں میں بھی بہتر پیداوار حاصل کی جا سکے گی۔ Integrated Pest Management (IPM) کے تحت مؤثر کیڑوں اور بیماریوں کے انتظام سے کیڑے مار ادویات پر انحصار کم ہوگا، جبکہ فصلوں کی گردش (crop rotation) مٹی کی زرخیزی برقرار رکھنے میں مدد دے گی۔ساجد محمود کا کہنا تھا کہ بعد از برداشت سنبھالنے کے جدید طریقے اور معیاری گریڈنگ سسٹم متعارف کروا کر پاکستانی کپاس کو عالمی منڈی میں زیادہ مسابقتی بنایا جا سکتا ہے۔ حکومتی پالیسیوں اور نجی شعبے کے درمیان مضبوط تعاون، کسانوں کی تربیت اور مالی معاونت کے پروگرام کپاس کے شعبے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ اگر برازیل کی طرز پر جدید سائنسی تحقیق، زرعی اصلاحات اور ٹیکنالوجی پر مبنی فیصلے کیے جائیں، تو پاکستان بھی کم رقبے میں زیادہ پیداوار حاصل کر کے عالمی سطح پر اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن بحال کر سکتا ہے۔
مزید براں کپاس کے کچھ کاشتکاروں اور جنرز کا کہنا ہے کہ کپاس کی بحالی، کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن حکومت کی دوہری پالیسی کی وجہ سے مقامی کاٹن کی خریداری میں yزبردست کمی ہو رہی ہے تشویشناک حد تک کپاس کی فصل کم ہونے کے باوجود جنرز کے پاس کپاس کا وافر اسٹاک موجود ہے جس کی وجہ حکومت کی جانب سے درامدی روئی پر EFS کی سہولت ہے جبکہ مقامی کاٹن پر 18 فیصد سیلز ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اگر مقامی کاٹن کو بھی ٹیکس سے مشتشنہ کر دیا جائے تو ملز مقامی کاٹن خریدیں گے 20 فیصد غیر رجسٹر اور گول کام بھی ختم ہوجائے گا اگر موجودہ سیزن کی طرح بین الاقوامی کاٹن کا بھاؤ مقامی کاٹن سے کم ہوگا آیندہ سیزن میں بھی ملز درامدی روئی میں دلچسپی رکھیں گی مقامی روئی کی فروخت مشکل رہے گی کپاس کی کاشت کی IN-PUT اتنی زیادہ ہے کہ وہ درامدی روئی کی قیمت کا مقابلہ نہیں کر سکے گی جبکہ جنرز کو بھی روئی کا معیار بڑھانہ پڑے گا موجودہ روئی کی کوالٹی ہائی موئسچر زیادہ ٹریش کم RD اور شارٹ فائبر درامدی روئی کا مقابلہ نہیں کر سکے گی اس وقت درامدی روئی کم قیمت اور معیاری ہونے کے علاوہ EFS کی سہولت کی وجہ سے ملز کے بڑے گروپ آیندہ سیزن کے لئے بھی بوکنگ کر رہے ہیں۔
ملک میں فلحال کپاس اگاؤ کی مہم چل رہی ہے لیکن اگر صورت حال ایسی ہی رہی اور مقامی روئی مناسب دام پر نہیں بک سکے گی تو کپاس کے کاشکاروں اور جنرز میں مایوسی پھیلے گی کچھ لوگوں کا خیال ہے کپاس اگاؤ کے ساتھ کپاس بکواؤ کا بھی بندوبست کرنا پڑے گا ؟اس کا واحد حل LEVEL PLAYING FIELD مہیا کرنا ہے.

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں