فصل کپاس میں مسلسل کمی پرپی سی جی اےکا وزیراعظم سے پھر رجوع

کپاس کی پیداوار میں کمی: پاکستان کی معیشت کو لاحق خطرات

ملتان ( خصوصی رپورٹر) پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) نے ملک میں کپاس کی فصل میں مسلسل کمی پر وزیراعظم محمد شہباز شریف سے دوبارہ رجوع کر لیا.پی سی جی اے کی جانب سے 11مارچ 2025 کو وزیر اعظم کو لکھے گئے خط پر فوری نوٹس،کمیٹی کی تشکیل،مسلسل میٹنگز،تجاویز اور سفارشات کی تیاری اور حتمی منظوری کیلئے سمری وزیر اعظم کو پیش کئے جانے کے مراحل کی کامیابی کپاس کے بہترمستقبل کی نوید ہے۔
وزیر اعظم کے نام 10 اپریل 2025 کو بھیجے گیے خط میں موقف اختیار کیا ہے کہ کپاس کی اہم ترین فصل جو کبھی ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتی تھی اب تاریخی حد تک کم ہو چکی ہے، جس سے دیہی روزگار، ٹیکسٹائل انڈسٹری اور ملک کی برآمدات (ایکسپورٹس) کو سنگین خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ 2016 تک پاکستان میں کپاس کی پیداوار نسبتاً مستحکم رہی، جو سالانہ 12 سے 15 ملین گانٹھوں کے درمیان تھی۔ 2005 میں پاکستان نے 14 ملین گانٹھیں پیدا کیں۔
جبکہ بھارت نے صرف 12 ملین گانٹھیں پیدا کی تھیں۔ 2016 کے بعد سے ہماری کپاس کی پیداوار میں شدید کمی واقع ہوئی ہے، جو اب صرف 5 ملین (50 لاکھ) گانٹھوں تک رہ گئی ہے۔یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے اس کے برعکس بھارت نے 2006 سے مستحکم اور معاون حکومتی پالیسیوں کی بدولت اپنی کپاس کی پیداوار میں مسلسل اضافہ کیا ہے اور اب تقریباً 35 ملین گانٹھیں سالانہ پیدا کرتا ہے، جس نے پاکستان کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
یہ کمی ہمارے جننگ سیکٹر کے زوال سے مزید بڑھ گئی ہے کام کرنے والی جننگ فیکٹریوں کی تعداد تقریباً 1200 سے گھٹ کر صرف 400 رہ گئی ہے۔ اس طرح کا انحطاط ہماری پوری ویلیو چین کو کمزور کرتا ہے اور مقامی کپاس کی کم ہوتی ہوئی مقدار کو پروسیس کرنے کی ہماری صلاحیت کو بھی متاثر کرتا ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں بہت سے کپاس کاشتکاروں نے چاول، مکئی اور گنے جیسی متبادل فصلیں اگانا شروع کر دی ہیں ان فصلوں کا انحصار بہت زیادہ پانی کے استعمال پر ہے، ملک کو پانی کی شدید کمی ہے۔
دوسری فصلوںپر منتقلی کی یہ تبدیلی بنیادی طور پر کپاس کے لیے حکومتی حمایت کی کمی اور ویلیو چین کے ہر مرحلے پر بھاری ٹیکسوں کے نفاذ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ دوسری طرف مقابلہ کرنے والی دیگر فصلیں بہتر حکومتی مراعات اور منافع کی وجہ سے زیادہ مقبول ہو رہی ہیں۔ کپاس،جننگ انڈسٹری جو کپاس سپلائی چین میں ایک مرکزی کردار ادا کرتی ہے، اب مکمل طور پر ختم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ مقامی طور پر پیدا ہونے والی کپاس پر 18فیصد سیلز ٹیکس،ودہولڈنگ ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔
جبکہ درآمد شدہ کپاس کو ٹیکس سے مستثنیٰ رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، کپاس کے بیج، تیل بنولہ اور(کھل) کیک آئل پر بھاری ٹیکسوں نے کپاس کی کاشت کو کاشتکاروں کے لیے ناقابل برداشت بنا دیا ہے۔ دوسرے کپاس پیدا کرنے والے ممالک کے برعکس جو اپنے مقامی صنعتوں کو مراعات، سبسڈیز اور ٹیکس چھوٹ کے ذریعے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ پالیسیاں مقامی کاشتکاروں(پروڈیوسرز) کو شدید نقصان پہنچا رہی ہیں۔ اگر فوری اقدامات نہیں کیے گئے،۔
تو ہم نہ صرف اپنی کپاس کی خودکفالت بلکہ عالمی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں اپنی مسابقت کو بھی کھو دیں گے، جس سے ہم مہنگی درآمد شدہ کپاس پر مزید انحصار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ہم آپ سے فوری اقدامات کی درخواست کرتے ہیں کپاس، کپاس کے بیج اور متعلقہ مصنوعات پر 18 سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔کپاس کے کاشتکاروں کو سبسڈیز اور مراعات فراہم کی جائیں تاکہ کپاس کی کاشت دوبارہ قابل عمل ہو سکے۔ درآمد شدہ کپاس پر مساوی ٹیکس یا درآمدی ڈیوٹی عائد کی جائے تاکہ ایک برابری کا میدان فراہم ہو سکے۔
تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت سے کپاس کی بحالی کے لیے ایک طویل المدتی پالیسی تشکیل دی جائے۔ امید ہے کہ آپ کی قیادت میں کپاس کا شعبہ دوبارہ بحال ہو گا، جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار محفوظ ہو گا اور پاکستان کی معیشت مضبوط ہو گی۔ فوری اور ہنگامی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں