کپاس کی بحالی سے ملکی معیشت میں انقلاب ممکن ہے: پی سی جی اے چیئرمین
ملتان ( خصوصی رپورٹر ) پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن(پی سی جی اے) کے چئیرمین ڈاکٹر جسومل نے میڈیا بیان میں کہا ہے کہ کپاس کی بحالی اور پیداوار میں اضافے سے ملک کی معاشی تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کرنے ملکی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
پی سی جی اے کی تجاویز اور سفارشات کی روشنی میں حکومتی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ کپاس جسے کبھی پاکستان کا سفید سونا (وائٹ گولڈ)کہا جاتا تھا، اب تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہے۔ یہ ہماری ٹیکسٹائل معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتی تھی، لیکن اب یہ زوال کا شکار ہوچکا ہے۔ کپاس کے زوال نے لاکھوں کسانوں، جنرز اور ٹیکسٹائل کارکنوں کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ لیکن اب بھی سب کچھ ختم نہیں ہوا۔
اگر صحیح پالیسی، ٹیکس اصلاحات اور اداراتی مدد فراہم کی جائے، تو کپاس ایک بار پھر مضبوطی سے اٹھ سکتی ہے۔ملکی(مقامی) کپاس کو سب سے بڑا دھچکا ٹیکس کے بوجھ اور جانبدارانہ درآمدی پالیسی کی وجہ سے لگا ہے۔ مقامی کپاس پر لِنٹ (کپاس کا رواں) اور اس کے ضمنی مصنوعات جیسے روئی (کاٹن) تیل بنولہ(سیڈ آئل)اور کھل (آئل کیک) پر بھاری ٹیکسز عائد ہیں، جبکہ درآمدی کپاس کو ٹیکس چھوٹ اور آسان رسائی حاصل ہے۔ اس نے مقامی پیداوار کو کمزور کیا ہے اور مارکیٹ کو غیر منصفانہ طور پر غیر ملکی سپلائرز کے حق میں کر دیا ہے۔
حکومت کو فوری اور فیصلہ کن اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ کپاس کو دوبارہ زندہ (بحال) کیا جا سکے۔ مقامی کپاس اور اس کی جننگ سے حاصل ہونے والی مصنوعات پر ٹیکسز ختم یا کم کیے جائیں۔ ایک ایسا ماحول بنایا جائے جہاں مقامی (ملکی) کپاس کو اس کے ملکی ہونے کی سزا نہ دی جائے۔ کسانوں کو سستے داموں تصدیق شدہ اور اصل بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویات تک سرکاری طور پر رسائی دی جائے۔ سبسڈی کا نظام بنایا جائے اور پیداواری اخراجات کم کرنے کے لیے کسانوں کو آسان زرعی قرضے دیے جائیں۔
تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کریں۔سرکاری اداروں جیسے سی سی آر آئی (CCRI) کو مضبوط بنایا جائے تاکہ زیادہ پیداوار دینے والی اور کیڑوں کے خلاف مزاحم کپاس کی اقسام تیار کی جا سکیں۔ بائیو ٹیکنالوجی میں عوامی-نجی شراکت داری کو فروغ دیا جائے۔ کپاس کاشتکاروں کے لیے کم از کم سپورٹ پرائس (MSP) یا قیمتی بیمہ کا نظام متعارف کرایا جائے۔ مقامی کپاس کی کٹائی کے موسم میں درآمدات پر پابندی لگائی جائے تاکہ مقامی قیمتیں محفوظ رہیں۔
کسانوں کو جدید کاشتکاری کے طریقوں، کیڑوں کے انتظام اور موثر آبپاشی کے نظام (جیسے ڈرپ اور اسپرنکل اریگیشن) کی تربیت دینے کے لیے قومی مہم چلائی جائے۔ اداروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جائے۔قومی کپاس بورڈ بنایا جائے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہوں تاکہ پالیسیوں پر عملدرآمد، پیشرفت کی نگرانی اور تحقیق، مارکیٹنگ اور سپورٹ سروسز میں ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف مزاحم کپاس کی اقسام تیار کی جائیں اور فصل کے اہم مراحل میں آبپاشی کے پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
موسمی انتباہی نظام متعارف کرایا جائے۔ کپاس کی بحالی صرف زراعت کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ خوراک کی سلامتی، دیہی روزگار، برآمدات اور معاشی ترقی کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری، جو کپاس پر انحصار کرتی ہے، صرف درآمدات پر زندہ نہیں رہ سکتی۔ حکومت کو اگلے بجٹ اور پالیسی سائیکل میں کپاس کی بحالی کو ترجیح دینی ہوگی۔ اگر ابھی سے ہنگامی اقدامات کریں،پوری توجہ اور عزم کے ساتھ تو پاکستان کا کپاس شعبہ ایک بار پھر مضبوطی، خوشحالی اور فخر کی علامت بن سکتا ہے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں