مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے روئی کے بھاؤ میں مجموئی طور پر استحکام رہا

پاکستان کی کپاس کی صنعت کا احیا: اقتصادی استحکام کی کلید

ملتان (رپورٹ نسیم عثمان)

مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے کے دوران روئی کے بھاؤ میں مجموئی طور پر استحکام رہا۔ کچھ کاروبار کوالٹی اور پیمنٹ کنڈیشن کے حساب سے فی من 15500 تا 17500 روپے کے بھاؤ میں طے پائے۔ لیکن بیشتر کاٹن کے درآمدی معاہدے ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں یارن اور کپڑا بھی درآمد ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ EFS کی سہولت ہے جس کے متعلق APTMA,PCGA اور حکومت کے درمیان مزاکرات ہورہے ہیں لیکن فی الحال کوئی نتیجا برآمد نہیں ہوسکا۔ بہر حال حکومت کی جانب سے تاخیر ہونے کی وجہ سے کاروبار بہت متاثر ہورہا ہے۔ لگتا ہے کہ PCGA نے حکومت سے مایوس ہونے کی وجہ سے مجبوراً آرمی چیف کو SOS کیا ہے PCGA کے چیئرمین ڈاکٹر جیسو مل لیمانی نے طویل خط ارسال کیا ہے جس میں سارے مسائل بیان کئے ہیں اور اس گمبھیر معاملے کا فوری حل نکالنے کی درخواست کی ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق صوبہ سندھ و پنجاب میں کپاس کی اگیتی بوائی ہورہی ہے پانی کا مسئلا ہے۔ صوبہ سندھ میں کچھ علاقوں میں پانی کی رسائی ہو رہی ہے صوبہ سندھ میں پانی کی کمی کی وجہ سے چاول کی بوائی اور گنے کی بوائی متاثر ہوئی چاول کے متعلق سندھ حکومت نے کچھ پابندیاں لگائی ہیں۔ صوبہ پنجاب میں کئی علاقوں میں مناسب بوائی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
کراچی میں گزشتہ دنوں ٹیکسٹائل مشینری کی نمائش منعقد کی گئی تھی جس میں 550 ملین ڈالر کے معاہدوں اور مفاہتمی یاداشتوں پر دستخط نمائش میں 20 سے زاہد ممالک کی 500 عالمی کمپنیاں جدید ٹیکنالوجیز کے ساتھ شریک ہوئی۔ 1 یونٹ میں 67 ہزار سے زاہد تجارتی نمائندوں نے شرکت کی۔
صوبہ سندھ و پنجاب میں روئی کا فی من بھاؤ کوالٹی اور پیمنٹ کنڈیشن کے حساب سے 15500 تا 17500 روپے چل رہا ہے۔
کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 200 روپے کا اضافہ کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 16700 روپے کے بھاؤ پر بند کیا۔
کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا بین الاقوامی کاٹن کے وعدے کے بھاؤ میں استحکام رہا۔ وعدے کا بھاؤ فی پاؤنڈ 67 تا 68 امریکن سینٹ کے درمیان رہا۔ USDA کی ہفتہ وار برامدی اور فروخت رپورٹ کے مطابق سال 25-2024 کیلئے 2 لاکھ 2 ہزار گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔
ویتنام 90 ہزار 900 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔
انڈیا 35 ہزار 300 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔
ترکی 32 ہزار گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔
پاکستان 19 ہزار 300 گانٹھیں خرید کر چوتھے نمبر پر رہا۔
سال 26-2025 کیلئے 65 ہزار 900 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔
پاکستان 21 ہزار 500 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔
ویتنام 11 ہزار 700 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔
گوئٹے مالا 11 ہزار 100 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر رہا۔
برامدات 3 لاکھ 28 ہزار 200 گانٹھوں کی ہوئی۔
ویتنام 87 ہزار 100 گانٹھیں درامد کر کے سرفہرست رہا۔
پاکستان 58 ہزار 600 گانٹھیں درامد کر کے دوسرے نمبر پر رہا۔
ترکی 44 ہزار 300 گانٹھیں درامد کر کے تیسرے نمبر پر رہا۔
دریں اثنا چیف آف آرمی اسٹاف (سی او اے ایس) جنرل عاصم منیر کو چاہیے کہ وہ کپاس کی پیداوار کے اہداف کو حاصل کرکے معاشی طور پر مضبوط کرنے کے لیے ملکی معیشت کو سرحدوں کی طرح بچائیں اور اس دور کو واپس لائیں جب پاکستان نے 470 پاؤنڈ کی 15 ملین گانٹھیں پیدا کی تھیں۔
یہ اپیل پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (PCGA) کے چیئرمین ڈاکٹر جسو مل ٹی لیمانی نے انہیں بھیجے گئے ایک کھلے خط میں کی ہے .انہوں نے کہا کہ کپاس کی معیشت کا احیا ہی قوم کی بقا ہے، ڈاکٹر جسو مل نے کہا کہ کپاس کی پیداوار میں اضافہ یقیناً ملک کی معاشی تقدیر بدل دے گا۔
کپاس کی بحالی ملک کی معاشی ترقی، خوشحالی اور استحکام کی ضمانت ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ کپاس کی زیادہ سے زیادہ کاشت کی مہم شروع کی جائے اور کپاس کے علاقے میں دیگر فصلوں کی کاشت کو محدود اور ممنوع قرار دیا جائے تاکہ وسیع رقبہ کو کپاس کی فصل کے نیچے لایا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ مراعات یافتہ طبقے نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر کاشتکاروں، جنرز اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کی قیمت پر کپاس کے زون کو گنے کے کھیت میں تبدیل کر دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کپاس کی کاشت کو کوآپریٹو فارمنگ کے ذریعے فروغ دینا چاہیے جیسا کہ حال ہی میں فوج نے شروع کیا ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف کے نام اپنے خط میں چیئرمین پی سی جی اے ڈاکٹر جسو مل نے کہا کہ حکمرانوں کی گمراہ کن، ناقابل عمل اور خامیوں سے بھرپور پالیسیوں نے ہماری کپاس کی معیشت کو تباہ کر دیا جو ماضی میں سینی زینتھ کو چھو چکی تھی۔
علاوہ ازیں تنزانیہ کپاس بورڈ کے سربراہ، وینکو نے کہا کہ، 2011 کے روز اپریل، کراچی کپاس ایسوسی ایشن (KCA) نے 17 اپریل کو، ای سی سی کے ای سی سی کے ایگزیکٹو کمیٹی اور سینئر اراکین کو پورا کرنے کے لئے ملکہ مفادات کے معاملات پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے سب سے زیادہ خاص طور پر تنزانیہ سے پاکستان میں کپاس کی درآمد کے بارے میں مزید مواقع تلاش کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ مواقع تلاش کرنے کے لئے دورہ کیا. KCA کے چیئرمین، نائب صدر نے کہا کہ کراچی میں کپتان کپاس ایسوسی ایشن پاکستان میں سب سے قدیم تجارتی تنظیموں میں سے ایک ہے. یہ کپاس میں گھریلو اور برآمد تجارت کے لئے ضروری سہولیات فراہم کرنے کے لئے 1933 میں سیٹ اپ تھا. انہوں نے مزید کہا کہ یہ پاکستان میں کپاس کی تجارت کا اہم جسم ہے اور کپاس کے کسانوں، جنینرز، ایکسپورٹرز، اسپنر اور کمیشن کے گھروں پر مشتمل ہے. دیگر تجارتی اداروں کے برعکس، یہ معنی میں ایک منفرد ایسوسی ایشن ہے کہ یہ کپاس کے تجارت کے تمام حصوں کی نمائندگی کرتا ہے. KCA کے نائب صدر خان نے کہا کہ 2011-05 میں پاکستان کی طرف سے 14.26 ملین بیلز کو حاصل کرنے کے بعد، پاکستان میں کپاس کی پیداوار آہستہ آہستہ سال کے بعد آہستہ آہستہ سال سے انکار ہوگیا. تاہم، گزشتہ 3-4 سالوں کے دوران پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں ایک سخت کمی ہوئی تھی. لہذا، مقامی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بنیادی طور پر بنیادی / بنیادی خام مال کی اپنی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے خام تیل کی فراہمی کرنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے. انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں تنزانیہ کے کپاس میں سے ایک ہے اور گزشتہ 04 سالوں کے دوران، پاکستان نے تنزانیہ سے کافی مقدار میں کپاس درآمد کیا ہے تاکہ مقامی ٹیکسٹائل ملز کے خام کپاس کی ضرورت ہو. تنزانیہ کپاس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل مسٹر چارلس Mtunga نے، سی سی اے کے تنخواہ کے لئے ایک سی سی اے کے دورے پر ایک سی سی اے کے دورے پر جانے کے لئے سی سی اے کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ تنزانیہ کے کپاس کی پیداوار بڑے پیمانے پر چھوٹے کسانوں کی طرف سے چل رہی ہے، شینیانگا اور موانزا سب سے بڑا کپاس بڑھتی ہوئی علاقوں کے ساتھ. انہوں نے یہ بھی کہا کہ اوسط، 400،000 ہیکٹر سالانہ کپاس کے لئے بویا گیا ہے. تاہم، پیداوار نسبتا کم ہے، عالمی اوسط. فصل بنیادی طور پر بارش کھلایا جاتا ہے، اور پیداوار موسمی حالات، فارمیٹ کی قیمتوں کی قیمتوں اور آدانوں، توسیع کی خدمات، اور نئی ٹیکنالوجیوں کی دستیابی سے متاثر ہوتا ہے. KCAS کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان تنزانیہ سے کافی مقدار میں کپاس درآمد کر رہا ہے اور کپاس بیلوں کی پیکنگ، تنزانیہ کے کپاس کے معیار پر اس کی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے. KCAS کی طرف سے تنزانیہ سے خام کپاس کی درآمد کے معاملے میں کپاس کے درآمدات کے کپاس کے تسلسل اور استحکام کے مسائل پر بھی اس کی تشویش کا اظہار کیا گیا. تنزانیہ کپاس کے ڈائریکٹر مسٹر مارکو چارلس MTUNGA نے KCAS کی جانب سے یقین دہانی کرائی کہ وہ طلوع کے حکومت کے ساتھ کپاس کے پاکستانی درآمدات میں بھی حل کرنے کے لۓ تنزانیہ کی حکومت کے ساتھ لے جائیں گے.
سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان کے شعبہ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کے سربراہ ساجد محمود نے کپاس کے نامور تجزیہ نگار نسیم عثمان سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں کپاس کی پیداوار کے ساتھ ساتھ اس کی کوالٹی میں بھی مسلسل گراوٹ ایک پیچیدہ صنعتی، زرعی اور معاشی مسئلہ بنتی جا رہی ہے، جس کا حل سائنسی بنیادوں پر مربوط اقدامات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ کپاس کے ریشے کی کوالٹی کو برقرار رکھنے میں جننگ ٹیکنالوجی کا کردار کلیدی ہے، مگر بدقسمتی سے بیشتر جننگ فیکٹریاں آج بھی پرانی اور غیر معیاری مشینری پر انحصار کر رہی ہیں، جو کپاس کے نرم و نازک ریشے کو نقصان پہنچا کر اس کی گریڈنگ اور مارکیٹ ویلیو کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں آٹو جننگ یونٹس کے ذریعے کپاس کی صفائی، ریشہ بندی اور نمی کے تناسب کو سائنسی انداز میں کنٹرول کیا جاتا ہے، جب کہ پاکستان میں یہ عمل اب بھی روایتی طریقوں پر جاری ہے۔
ساجد محمود نے “کاٹن کنٹرول ایکٹ 1966” کی عدم عملداری کو بھی مسئلے کی ایک اہم وجہ قرار دیا اور کہا کہ قانون کے مؤثر نفاذ کے بغیر جننگ، نقل و حمل اور کوالٹی کنٹرول کا نظام مؤثر نہیں ہو سکتا۔ ان کے بقول، پاکستان میں اب تک کوالٹی پر مبنی قیمت کے تعین کا کوئی مربوط نظام لاگو نہیں کیا جا سکا، جس کے باعث کاشتکار کو اعلیٰ معیار کی پیداوار کا نہ کوئی اضافی معاوضہ ملتا ہے، نہ کوئی حوصلہ افزائی۔ نتیجتاً کسان کی توجہ صرف پیداوار کی مقدار تک محدود رہ جاتی ہے، جس سے مجموعی کوالٹی متاثر ہوتی ہے۔
انہوں نے چنائی کے دوران غیر تربیت یافتہ مزدوروں کے استعمال کو بھی کپاس کی کوالٹی میں کمی کی ایک اہم وجہ قرار دیا۔ ان کے مطابق، صفائی، نمی کی سطح اور نازک ریشے کے تحفظ سے لاعلم مزدور چنائی کے دوران کپاس میں دھول، پتے اور خشک پھول شامل کر دیتے ہیں، جس سے کوالٹی گریڈنگ متاثر ہوتی ہے اور بین الاقوامی منڈیوں میں پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔
ساجد محمود نے زور دیا کہ اگر ہم عالمی منڈی میں پاکستانی کپاس کو دوبارہ سفید سونا بنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں فوری طور پر سائنسی اور عملی اصلاحات کا آغاز کرنا ہوگا۔ اس میں جننگ یونٹس کی اپ گریڈیشن، قوانین پر سختی سے عملدرآمد، کسانوں کے لیے کوالٹی انسینٹو سسٹم کا نفاذ اور چنائی سے متعلقہ مزدوروں کی تربیت جیسے اقدامات شامل ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ یہی وہ جامع راستہ ہے جس پر چل کر ہم پاکستان کی معیشت کو مستحکم کر سکتے ہیں۔
ملک کے ٹیکسٹائل گروپ کی برآمدات میں رواں مالی سال کے جولائی تا مارچ 2024-25 کے دوران 9.38 فیصد کا اضافہ ہوا اور یہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 12.445 بلین ڈالر کے مقابلے میں 13.613 بلین ڈالر رہی، پاکستان بیورو آف شماریات (PBS) نے کہا۔
پی بی ایس کی جانب سے جاری کردہ برآمدات اور درآمدات کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جولائی تا مارچ 2024-2025 کے دوران ملک کی مجموعی برآمدات 24,719 ملین ڈالر (عارضی) رہی جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران 22,926 ملین ڈالر کے مقابلے میں 7.82 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہیں۔
مارچ 2025 میں برآمدات مجموعی طور پر 2,646 ملین ڈالر (عارضی) تھیں جو کہ فروری 2025 میں 2,490 ملین ڈالر کے مقابلے میں فروری 2025 کے مقابلے میں 6.27 فیصد اور مارچ 2024 کے 2,567 ملین ڈالر کے مقابلے میں 3.08 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہیں۔ فروری 2025 میں 14.132 بلین ڈالر کے مقابلے میں 14.299 بلین ڈالر اور ماہ بہ ماہ (MoM) میں 1.18 فیصد اضافہ ہوا۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں