پرنسپل گریجویٹ کالج کی مبینہ نازیبا ویڈیو، انکوائری کمیٹی تونسہ پہنچ گئی

پروفیسر عطا محمد کھوسہ اسکینڈل: سچ کیا ہے؟ مکمل رپورٹ

تونسہ شریف (بیٹھک رپورٹ) گورنمنٹ گریجویٹ کالج تونسہ شریف کے پرنسپل پروفیسر عطاء محمد کھوسہ کی مبینہ نازیبا ویڈیوز کے سوشل میڈیا پر منظر عام پر منظر عام پر آنے کے بعد ڈائریکٹر کالجز ڈیرہ غازیخان کی جانب سے قائم کردہ تین رکنی انکوائری کمیٹی نے ہفتے کے تونسہ پہنچ کر وقوعے کے متعلق معلومات اکٹھی کئیں کمیٹی کے سربراہ گورنمنٹ گریجویٹ کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر سجاد حسین کی سربراہی میں کمیٹی ممبران ایسوسی ایٹ پروفیسر گورنمنٹ گریجویٹ کالج وومن ماڈل ٹاؤن ڈیرہ غازیخان رابیعہ صدیق اور ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز ڈیرہ غازیخان فرخ فہیم انکوائری کے سلسلے میں پوسٹ گریجویٹ کالج تونسہ پہنچے کمیٹی کو مزید کاروائی کے لئے تین دن کے اندر معاملے کی انکوائری کر کے اپنے کمنٹس اور سفارشات جمع کروانے کی ہدایت جاری کی گئی۔
ذرائع کے مطابق کمیٹی ممبران نے کالج پہنچ کر کالج نوٹس بورڈ پر متاثرین یا شکایت کنندگان کو کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنا موقف پیش کرنے کا کہا لیکن کمیٹی ممبران نے میڈیا کو بتایا کہ کوئی شکایت کنندہ یا متاثرہ فریق پیش نہ ہوا دوسری جانب پروفیسر عطاء محمد کھوسہ اپنے حمایتیوں کے جھرمٹ میں کمیٹی سے ملے اور واقعے کو اپنے خلاف ایک سازش قرار دیا۔ذرائع نے بتایا کہ چند اور اساتذہ نے بھی اسی نمبر سے اسی وقت ویڈیو کال ریسیو ہونے کی تصدیق کی جس وقت کو کال ریسیو ہوئی انہوں نے بتایا کہ کمیٹی ممبران نے پروفیسر کھوسہ ویڈیو کال کے دوران برہنہ ہو کر نازیبا حرکات کرنے کی بابت پوچھنے کی بجائے پروفسیر عطاء محمد کھوسہ کو ہنی ٹریپ کا شکار کرنے اور بعد ازاں مبینہ طور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف مہم چلانے کی مذمت کی۔
انہوں نے بتایا کہ اگر کالج کی حدود میں ویڈیو کال کے دوران پروفیسر کھوسہ برہنہ ہو کر نازیبا حرکتیں کر رہے ہیں تو یہ ان کا انفرادی عمل کسی صورت قرار نہیں دیا جا سکتا اور یہ بنیاد بنا کر کہ پروفیسر کھوسہ کو ہنی ٹریپ کیا گیا ہے انہیں کلین چٹ دیدی جائے تو یہ نامناسب ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ بجائے اس کے یہ دیکھنے کے کہ پروفیسر کھوسہ کا یہ عمل قانون کی نظر میں جرم ہے یہ دیکھنا پڑے گا کہ کیا کہ ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ کی جانب سے تعلیمی ادارے کی حدود میں یہ عمل کرنا کس قانون اور ضابطے کے تحت نظر انداز کیا جا سکتا ہے کمیٹی ممبران نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر ابہام پھیلانے والوں کے خلاف کاروائی ضروری ہے ، حقائق تک پہنچنے کے لیے کچھ دن لگ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہے کہ جلد از جلد اس معاملے کو کلیر کیا جائے گا تاکہ عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور تشویش کا خاتمہ ہو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پروفیسرز ، میڈیا نمائندگان ، سول سوسائٹی ممبران کے بیانات قلم بند کیے ہیں جن میں بات کی متعدد لوگوں نے تصدیق کی کہ ایک نمبر سے متعدد اساتذہ ، صحافیوں اور دیگر شخصیات کو ویڈیو کال آئی ہیں رؤف قیصرانی ایڈوکیٹ نے روزنامہ بیٹھک کو بتایا کہ پروفیسر کھوسہ نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو کسی جرم کے زمرے میں آتا ہو ان کا کہنا تھا کہ کوئی شکایت کنندہ موجود نہیں ہے نہ کسی کو ہراساں کیا گیا ہے محض ذاتی عمل پر پروفیسر کھوسہ کے خلاف کوئی قانون کاروائی نہیں ہو سکتی۔
ان کا کہنا تھا پروفیسر کھوسہ کا سوشل میڈیا پر ٹرائل کیا جا رہا ہے جو کہ ایک نہایت قابلِ مذمت عمل ہے ان کا کہنا تھا کہ پروفیسر کھوسہ نے تونسہ جیسے شہر میں علم کہ شمع روشن کی ان کا کہنا تھا قبائلی سماج کے لوگوں کا اپنی بچیوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجنا کئی دہائیوں کی محنت کا نتیجہ ہے پروفسیر کھوسہ کے ایشو کو بلا وجہ اچھال کر بچیوں کی تعلیم کے راستے بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ان کا کہنا تھا اس عمل کے پیچھے عناصر کار فرما ہیں وہ خود کوئی نیک نام لوگ نہیں ہیں اور ممکنہ طور پر پروفیسر کھوسہ کے مقابل پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے کسی سربراہ کی جانب سے ان عناصر کی سرپرستی خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ ایسا اس وقت کیا جا رہا ہے جبکہ پرائیویٹ کالجز میں داخلے ہونے جا رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ایک درخواست وفاقی محتسب انسداد ہراسانی اسلام آباد کو بھیجی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں پوسٹ گریجویٹ کالج تونسہ کے پرنسپل، عطا محمد کھوسہ، کو نوجوان طالبات کے ساتھ نامناسب اور جنسی طور پر ہراساں کرنے والے رویے میں ملوث دکھایا گیا ہے۔ درخواست کے مطابق عوامی دعووں کے مطابق یہ طالبات ان کے ادارے کی ہیں۔ مزید برآں، پروفیسر کھوسہ ایک نجی ٹیوشن اکیڈمی بھی چلاتے ہیں جو بعض اوقات سرکاری کالج کے اوقات میں بھی کھلی رہتی ہے، جو کہ مفادات کے ٹکراؤ کی نشاندہی کرتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ اطلاعات کے مطابق، طلباء و طالبات کو کالج کی باقاعدہ کلاسوں میں شرکت کے بجائے اس نجی اکیڈمی میں داخلہ لینے پر مجبور کیا جاتا ہے، جبکہ ان کی حاضری کالج میں مکمل ظاہر کی جاتی ہے اور یہ عمل انتظامی شفافیت اور جوابدہی کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ درخواست مزید کہا گیا کہ اس واقعے کے علاوہ، علاقے کی مختلف دیگر ٹیوشن اکیڈمیوں میں جنسی ہراسانی کے واقعات بھی آن لائن منظر عام پر آئے ہیں۔ یہ اکیڈمیاں عام طور پر کسی ضابطہ اخلاق یا ہراسانی سے بچاؤ کے اقدامات کے بغیر کام کرتی ہیں۔ خاص طور پر، ان اکیڈمیوں میں تقریباً 95 فیصد تدریسی عملہ مردوں پر مشتمل ہے جو مخلوط صنفی کلاسز کو پڑھاتے ہیں، جس سے ہراسانی اور بدسلوکی کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ الزامات اساتذہ کے علاوہ سینئر طلباء اور انتظامی عملے تک بھی پھیلے ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ پروفیسر کھوسہ اس سارے معاملے میں خود کو بے گناہ قرار دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ پر قسم کی تحقیقات میں سرخرو ہوں گے۔ اس سلسلے میں روزنامہ بیٹھک نے جب کمیٹی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سجاد حسین کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا تو وہ رابطے میں نہ آ سکے

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں