کپاس کی پیداوار میں بہتری کے امکانات اور درپیش چیلنجز
ملتان (رپورٹ نسیم عثمان )مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے کے دوران روئی کے بھاؤ میں مجموئی طور پر تیزی رہی ضرورت مند ملز نے کوالٹی اور پیمنٹ کنڈیشن کے حساب سے فی من 15500 تا 17500 روپے کے بھاؤ پر طے پائے۔ کاروباری حجم نسبتاً بہتر رہا۔
نیویارک کاٹن کے بھاؤ میں ملا جلا رجحان تیزی کا عنصر غالب رہا۔ APTMA , PCGA , FPCCI مسلسل EFS کی سہولت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں حکومت سے اپیلیں اور التجا کر رہے ہیں مسلسل LEVEL PLAYING FIELD کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن کوئی توجہ نہیں دی جا رہی PCGA کے چیئرمین ڈاکٹر جیسومل لیمانی نے حکومت کے تاخیری رویہ سے مایوس ہوکر آرمی چیف اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کو بھی مداخلت کے متعلق خصوصی خط ارسال کیا ہے۔
علاوہ ازیں آئندہ سیزن 26-2025 کی کپاس کی فصل کے متعلق خبریں گردش کر رہی ہیں صوبہ پنجاب میں 35 لاکھ ایکڑ پر کپاس کی کاشت کی جائے گی صوبہ سندھ میں 15 لاکھ ایکڑ پر کاشت کی جانے کی خبریں آرہی ہیں۔ صوبہ پنجاب میں رواں سیزن کپاس کی کاشت کا ہدف 35 لاکھ ایکڑ مقرر کر دیا گیا ہے۔ یہ بات سیکرٹری زراعت پنجاب افتخار علی سہو نے کپاس کی صورتحال کے سلسلہ میں ایگریکلچر ہائوس میں منعقدہ اعلی سطحی جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔
سیکرٹری زراعت پنجاب نے کہا کہ کپاس کی کاشت کے ہدف کے حصول کے لئے تمام ممکنہ وسائل و ذرائع بروئے کار لائے جا رہے ہیںفیلڈ فارمیشنز کو 15 مئی تک سو فیصد ہدف کے حصول کا ٹاسک سونپ دیا اور بروقت و خصوصی مہم کے نتیجہ میں کل ہدف کا 28 فیصد حاصل کر لیا گیا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ کپاس کی اگیتی کاشت کے نگہداشتی امور بارے فنی راہنمائی کا سلسلہ جاری اورکپاس کے علاقوں میں نہری پانی کی دستیابی کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
سیکرٹری زراعت پنجاب نے واضح کیا کہ کپاس کی کاشت کے کل ہدف کا50 فیصد بہاولپور ڈویژن سے حاصل کیا جائے گا جبکہ رواں سال کپاس کی کاشت کے رجحانات نہایت حوصلہ افزا ہیں۔صوبۂ سندھ و پنجاب میں کوالٹی اور اور پیمنٹ کنڈیشن کے حساب سے روئی کا فی من بھاؤ 15500 تا 17500 روپے چل رہا ہے۔کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ فی من 16700 روپے کے بھاؤ پر مستحکم رکھا۔کراچی کاٹن بروکر فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن کے بھاؤ میں ملا جلا رجحان رہا نیویارک کاٹن کے وعدے کا بھاؤ میں اتار چڑھاؤ کے بعد تیزی کا رجحان رہا بھاؤ فی پاؤنڈ 68.41 تا 69.91 امریکن سینٹ کے درمیان چل رہا ہے۔
USDA کی ہفتہ وار برآمد اور فروخت رپورٹ کے مطابق سال 2024-25 کیلئے 1 لاکھ 8 ہزار 400 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔ملائیشیا 25 ہزار 600 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔بنگلہ دیش 25 ہزار 400 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔ویتنام 15 ہزار 200 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔سال 2025-26 کیلئے 32 ہزار 900 گانٹھیں فروخت ہوئی۔انڈونیشیا 15 ہزار 800 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔پاکستان 15 ہزار 400 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔
چائنا 900 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔برامدات 3 لاکھ 66 ہزار گانٹھوں کی ہوئی۔ویتنام 1 لاکھ 8 ہزار گانٹھیں درآمد کرکے سرفہرست رہا۔ترکی 96 ہزار 100 گانٹھیں درآمد کرکے دوسرے نمبر پر رہا۔پاکستان 52 ہزار 300 گانٹھیں درآمد کرکے تیسرے نمبر پر رہا۔انٹرنیشنل کاٹن مارکیٹ ڈالر انڈیکس میں کمی کی وجہ سے بہتری رہی اور مارکیٹ دو ہفتوں سے زائد کی کم ترین سطح سے دوبارہ بحال ہوگئی کیونکہ کے چین کی وزارت تجارت نے امریکہ چین تجارتی تعلقات مین بہتری کا اشارہ دیا جس سے منڈیوں میں امید کی کرن پیدا ہوئی۔
دریں اثنا سندھ کے ساحلی شہروں میں انتہائی محدود پیمانے پرکپاس کی نئی فصل کی چنائی شروع ہونے سے روئی کے ایڈوانس سودوں کا بھی آغاز ہوگیا اور ملکی تاریخ میں پہلی بار پاکستان میں نیا کاٹن جیننگ سیزن مئی کے پہلے ہفتے میں شروع ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایاکہ پاکستان میں کپاس کی نئی فصل سے پہلے مرحلے میں تیار ہونیوالی روئی کے ایڈوانس سودے شروع ہوگئے ہیں۔ ابتدائی طور پر10 تا 15مئی ڈلیوری کی بنیاد پر پنجاب کے شہروں بورے والا اور منڈی جہانیاں کی 2 جننگ فیکٹریوں نے روئی کی 600 گانٹھوں کے ایڈاونس فروخت کے سودے17ہزار روپے سے 17 ہزار 300 روپے فی من کے حساب سے ہوئے ہیں۔
جبکہ ان فیکٹریوں نے کپاس سندھ کے ساحلی علاقوں سے 8 ہزار 300 روپے سے 8 ہزار 500 روپے فی 40 کلو گرام کے حساب سے خریدی ہیں، انھوں نے بتایا کہ سندھ کے بعض ساحلی علاقوں میں انتہائی کم مقدار میں کپاس کی چنائی کا آغاز ہوا ہے جنھیں پنجاب کے کاٹن جنرز خرید رہے ہیں۔علاوہ ازیں ساجد محمود ،سربراہ شعبہ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان نے کپاس کے نامور تجزیہ نگار نسیم عثمان سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ معتبر اطلاعات کے مطابق، پاکستان رواں برس تقریباً تین ارب ڈالر مالیت کی کپاس درآمد کر رہا ہے، جو نہ صرف ملکی معیشت پر بھاری مالی بوجھ کا باعث بن رہا ہے بلکہ اس سے مقامی کپاس کے شعبے میں درپیش چیلنجز کی سنگینی بھی نمایاں ہوتی ہے۔
اس قدر بڑی مقدار میں درآمد اس امر کی عکاس ہے کہ مقامی پیداوار فی الوقت قومی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں، جس کے پیچھے کئی انتظامی، تکنیکی اور تحقیقی عوامل کارفرما ہیں۔ساجد محمود کا کہنا تھا کہ ایسے میں کپاس کی تحقیق اور ترقی کا شعبہ خاص توجہ کا متقاضی ہے۔ پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی (PCCC) جیسے اہم قومی ادارے کو سائنسی تحقیق کے فروغ کے لیے درکار وسائل میں کمی کا سامنا ہے، جس سے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تحقیق کی رفتار متاثر ہو سکتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، کپاس سے متعلقہ سیس (Cess) کی مد میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی جانب سے واجبات کی بروقت ادائیگی بھی ایک اہم پہلو ہے، جس پر پیش رفت سے تحقیقاتی نظام کو تقویت مل سکتی ہے۔ان کا مذید کہنا تھا کہ فی الوقت پی سی سی سی میں منظور شدہ آسامیوں کا محض 28 فیصد حصہ زرعی سائنسدانوں اور فنی عملے پر مشتمل ہے، جو تحقیقاتی سرگرمیوں میں تسلسل اور وسعت کے لیے ایک چیلنج ہے۔ مزید یہ کہ فیلڈ ٹرائلز کے لیے زرعی مداخل کی بروقت فراہمی اور مطلوبہ بجٹ کی محدود دستیابی، تحقیق کی افادیت کو متاثر کر رہی ہے۔ساجد محمود کا کہنا تھا کہ اس تمام صورتحال کا اثر براہ راست کپاس کے کاشتکاروں پر پڑ رہا ہے، جو بہتر اقسام، موسمی اثرات سے محفوظ بیج اور پیداواری لاگت میں کمی کے لیے سائنسی معاونت کے منتظر ہیں۔
فی ایکڑ پیداوار میں کمی اور منڈی میں مسابقتی صلاحیت کا متاثر ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اب تحقیق، مشاورت اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پر توجہ مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا ملکی زرِمبادلہ کی بچت، کاشتکار کی معاونت اور کاٹن سیکٹر کی بحالی کے لیے ناگزیر ہے کہ تحقیقاتی اداروں کو مضبوط بنایا جائے، وسائل کی فراہمی یقینی بنائی جائے، اور سائنسی بنیادوں پر فیصلے کرکے کپاس کی پیداوار کو مستحکم کیا جائے۔مزید برآں فیڈرل کمیٹی آن ایگریکلچر (FCA) نے 2.2 ملین ہیکٹر کے رقبے پر کپاس کی پیداوار کا ہدف 2025-26 کے لئے 10.18 ملین گانٹھوں پر مقرر کی ہےا۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں