وائس چانسلر وومن یونیورسٹی ملتان کا استعفیٰ: ڈاکٹر فرخندہ منصور خبروں کی زد میں
اسلام آباد (سپیشل رپورٹر) چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار کی حمایت کھونے کے بعد وائس چانسلر وومن یونیورسٹی ملتان ڈاکٹر فرخندہ منصور اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئیں، استعفیٰ گورنر کو بھجوا دیا، گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر جو کہ یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں کی جانب سے استعفیٰ جلد منظور ہونے کا امکان۔
ذرائع کے مطابق اپنی بیماری کے باعث یونیورسٹی کو باقاعدہ طور پر جوائن نہ کر سکنے، یونیورسٹی کے مالی اور انتظامی معاملات میں ابتری، مختلف بلوں پر ڈاکٹر فرخندہ کے دستخطوں میں فرق اور ڈاکٹر مختار کے ایماء پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ہیڈ آفس میں یونیورسٹی سینڈیکیٹ کے متنازعہ اجلاس کے بعد ڈاکٹر مختار کی جانب سے حمایت سے ہاتھ کھینچنے کے بعد ڈاکٹر فرخندہ منصور کے پاس استعفیٰ کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر فرخندہ جن کا نام وائس چانسلر کی تعیناتی کے لئے تجویز کردہ امیدواروں میں تیسرے نمبر پر تھا ڈاکٹر مختار کی حمایت سے وائس چانسلر وومن یونیورسٹی بننے میں تو کامیاب ہو گئیں۔
لیکن ان کی بیماری نے انہیں یونیورسٹی کو باقاعدہ طور پر جوائن کرنے کی اجازت نہ دی اور اپنے علاج کے سلسلے میں انہیں اسلام آباد تک محدود ہو کر رہ جانا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بیچ ڈاکٹر مختار کی مشاورت اور سہولت کاری کے نتیجے میں یونیورسٹی پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے ڈاکٹر فرخندہ کے دو قریبی عزیزوں کی مدد سے یونیورسٹی کے معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لئے اور اس سلسلے میں سابق رجسٹرار ڈاکٹر ڈاکٹر میمونہ یاسمین اور اسسٹنٹ رجسٹرار کامران بھٹہ کا کردار سب سے متنازعہ اور مشکوک رہا۔
جنہوں نے وائس چانسلر ڈاکٹر فرخندہ کی بیماری جیسی مجبوری کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا اور ڈاکٹر فرخندہ کو بند گلی میں پہنچا دیا۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں لوگوں کے ایما پر پہلے ڈاکٹر فرخندہ نے اپنی بیماری کے باعث علاج کے سلسلے میں گورنر کو چھٹی کی درخواست بھجوائی جو منظوری ہو گئی اور بعد ازاں منظور شدہ چھٹی سے مکر جانے کا مشورہ بھی انہیں لوگوں نے وائس چانسلر کو دیا کیونکہ ڈاکٹر کلثوم رانا بطور ایکٹنگ وائس چانسلر بہت سے مالی اور انتظامی اقدامات نہیں اٹھا سکتی تھیں۔
اس لئے ڈاکٹر فرخندہ کی منظور شدہ چھٹی کے دنوں میں متنازعہ سینڈیکیٹ کی میٹنگ اور غیر قانونی طور پر اٹھائے گئے کئی دیگر اقدامات کو جواز دینا ممکن نہ تھا اور مستقل وائس چانسلر کی موجودگی ضروری تھیان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر فرخندہ کی چھٹی منسوخ ظاہر کر کے ڈاکٹر فرخندہ کی تعیناتی سے قبل پانچ کروڑ سے زائد مالیت کے آٹی ایکوئپمنٹس کی غیر قانونی خریداری کی منظوری بھی ضروری تھی کیونکہ ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے متعلقہ فرم ہائیکورٹ سے رجوع کر چکی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ادائیگی کو ممکن بنانے کے لئے عدالتی حکم کا سہارا لینے کا مشورہ کامران بھٹہ کی جانب سے دیا گیا تھا تاکہ بعد میں یہ کہا جا سکے کہ عدالتی احکامات پر ادائیگی کی گئی مگر عدالت نے ادائیگی کرنے کی بجائے یونیورسٹی کو اس معاملے پر فیصلہ کرنے کا حکم جاری کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بطور چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار کو ان معاملات کا علم ہونے پر کاروائی کرنی چاہیے تھی مگر انہوں نے ذاتی تعلقات کو اپنی پیشہ وارانہ زمہ داری پر ترجیح دیتے ہوئے غیر قانونی طور پر نہ صرف ایچ ای سی ہیڈ آفس میں یونیورسٹی سینڈیکیٹ کا اجلاس منعقد کرا دیا بلکہ اس میں شریک ہو کر تمام عمل کی خود نگرانی کی اور سینڈیکیٹ ممبران جو کہ ڈاکٹر فرخندہ کے چھٹی پر ہونے کی بنیاد پر اجلاس کے انعقاد پر اعتراض کر رہے تھے کو مختلف ذرائع سے فون کروا کر ہر حال میں اجلاس کا انعقاد یقینی بنوایا۔
ڈاکٹر مختار کی جانب سے ان مبینہ بے ضابطگیوں کے خلاف ایک شہری فیاض مستوئی نے صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف کو خطوط (میلز) لکھے جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد میں تین اپریل کو ہونے والے یونیورسٹی سینڈیکیٹ اجلاس کے حوالے سے ڈاکٹر مختار کی جانب سے بطور چیئرمین ایچ ای سی بے ضاطگیاں اور تضادات سامنے لانا چاہتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مختار کی جانب سے خاص طور پر ٹیبل ایجنڈا نمبر چار، چھ اور دس اور مجموعی طور پر پورے اجلاس میں ان کے طرز عمل نے جانبداری، طریقہ کار کی خلاف ورزی اور قانونی و پالیسی اصولوں کی پامالی پر سنگین تحفظات کو جنم دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں ڈاکٹر مختار کی جانب سے یہ مشورہ دیا گیا کہ رجسٹرار کا اضافی چارج کسی سینئر افسر کو دیا جائے۔
، تاہم اسی اجلاس کے اگلے ایجنڈا آئٹم میں سینیارٹی اور میرٹ کے بنیادی اصولوں کی صریح خلاف ورزی کی گئی، جو فیصلہ سازی کی ساکھ کو مجروح اور اس میں پوشیدہ مقاصد اور قواعد و ضوابط کے انتخابی اطلاق پر سوالات اٹھاتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ انتہائی افسوسناک اور حیران کن بات یہ ہے کہ چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار نے بغیر کسی باقاعدہ قانونی کارروائی، انکوائری یا قانونی جواز کے خود ہی ایک سینئر پروفیسر کو معطل کرنے کی تجویز دی جو کہ ایک یکطرفہ اقدام، قدرتی انصاف کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی اور ایک سینئر استاد کے قانونی اور ملازمتی حقوق کی پامالی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایک غیر جانب دار نگران ادارے کا سربراہ ہونے کی بجائے، چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار نے خود اس فیصلے کی سربراہی کی جو ذاتی مخالفت، مسابقت کے خاتمے اور اختیار کے آمرانہ استعمال کی نشاندہی کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسا طرز عمل نہ صرف تعلیمی آزادی اور منصفانہ انتظامی رویے کے خلاف ایک خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔
، بلکہ ادارہ جاتی اختیار کے غلط استعمال کی نشاندہی بھی کرتا ہے جس کا مقصد افراد کو نشانہ بنانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار نے حال ہی میں ریٹائر ہونے والی ایک افسر (ڈاکٹر میمونہ یاسمین خان) کی دوبارہ تقرری کی بھرپور حمایت کی، حالانکہ یہ اقدام پنجاب حکومت کی ری ایمپلائمنٹ پالیسی اور پنجاب سول سرونٹس ایکٹ 1974 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، جو ایسی تقرریوں کو بغیر قانونی جواز، اشتہار اور مسابقتی عمل کے صراحتاً ممنوع قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مختار کا یہ عمل کھلے عام اقربا پروری، ادارہ جاتی جانبداری اور ایچ ای سی کے اپنے ریگولیٹری فریم ورک کی خلاف ورزی کو ظاہر کرتا ہے، جو ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر تقرریوں کی صرف غیر معمولی حالات میں اجازت دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر ڈاکٹر مختار کے عمل نے یونیورسٹی میں اثر و رسوخ اور معاملات کو بیک ڈور سے کنٹرول کرنے کے عمل کے تسلسل کو ممکن بنایا ہے جس سے شفافیت، میرٹ اور قانون کی حکمرانی بری طرح متاثر ہوئی ہےانہوں نے مطالبہ کیا کہ چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار کے وومن یونیورسٹی ملتان کے سینڈیکیٹ کے اجلاس میں طرز عمل کی اعلیٰ سطح پر انکوائری کروائی جائے تاکہ جوابدہی کو یقینی بنایا جا سکے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طریقہ کار کی شفافیت اور علمی خودمختاری کو مزید نقصان سے بچایا جا سکے۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اس معاملے کو عوامی مفاد، انصاف، بہتر حکمرانی اور پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے مستقبل کے پیش نظر فوری اور سنجیدگی سے نمٹایا جائے۔
اس سلسلے میں روزنامہ بیٹھک نے جب ڈاکٹر مختار، سیکریٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب ڈاکٹر فرخ نوید، ڈاکٹر میمونہ یاسمین اور کامران بھٹہ کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا گیا تو وہ رابطے میں نہ آ سکے جبکہ یونیورسٹی رجسٹرار ڈاکٹر ملائکہ رانی اور میڈیا کوآرڈینیٹر ڈاکٹر دیبا شہوار نے وائس چانسلر ڈاکتر فرخندہ کے استعفے کی تردیدکی،ڈاکٹر دیبا کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ ڈاکٹر فرخندہ نے استعفی دیا ہے ان کا کہنا تھا کہ ان کی وائس چانسلر سے بات ہوئی ہے اور سن کا کہنا ہے کہ یہ ساری بے بنیاد خبریں ہیں کیونکہ اگر اس طرح کا کچھ بھی ہو گا تو اتنی رازداری اور پوشیدگی سے نہیں ہوتا لہذا یہ ایک بے بنیاد خبر ہے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں