ایچ ای سی میں ڈاکٹر ضیاء القیوم کی برطرفی: اندرونی اختلافات اور تنازعات کی کہانی
اسلام آباد (سپیشل رپورٹر) ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی گورننگ باڈی نے پرفارمنس ایویلوایشن کمیٹی کی سفارش پر ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ضیاء القیوم کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ایک مختصر اعلامیہ کے مطابق، عبوری طور پر ایچ ای سی کے ایڈوائزر (پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ) ڈاکٹر مظہر سعید کو ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا اضافی چارج دے دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کمیشن نے ہدایت کی ہے کہ مستقل ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی بھرتی کے لیے فوری طور پر عملدرآمد شروع کیا جائے۔
ذرائع نے روزنامہ بیٹھک کو بتایا کہ ڈاکٹر ضیاء القیوم کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی بنیادی وجہ ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد کے ساتھ ان کے شدید اختلافات تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان اختلافات کی ابتدا وزیراعظم لیپ ٹاپ اسکیم کے تحت ایک لاکھ لیپ ٹاپس کی خریداری سے ہوئی۔انہوں نے بتایا کہ یہ لیپ ٹاپ ہائیرکمپنی سے مبینہ طور ہر مسابقاتی عمل کو بلڈوز کر کے خریدے گئے اور یہ ایک ایس کمپنی ہے جو ایلکٹرونکس کی متعدد اشیا جیسے فرج اور ائیر کنڈیشنرز تو بناتی ہے۔
لیکن لیپ ٹاپ بنانے کے حوالے سے کچھ زیادہ معروف نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے کچھ عرصہ قبل ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں مزید ایک لاکھ لیپ ٹاپس کی بروقت خریداری میں ناکامی پر ایچ ای سی چیئرمین ڈاکٹر مختار پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور انہیں نااہل قرار دیا۔انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر مختار نے اس تاخیر کا ذمہ دار ڈاکٹر ضیاء کو قرار دیا، جس پر کابینہ کے وفاقی سیکریٹری کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی قائم کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر ضیاء نے کمیٹی کو بتایا کہ انہوں نے صرف ایک کمپنی کو بولی میں اہل کرنے پر اعتراض کیا تھا اور شفاف مقابلے کے لیے دوبارہ اشتہار جاری کرنے کی ہدایت دی تھی۔ذرائع کے مطابق کیبنٹ سیکریٹری کی سربراہی میں بنائی گئی انکوائری کمیٹی نے کسی ایک فرد کو بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا، مگر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر مختار نے ذاتی مخالفت کی بنیاد پر ڈاکٹر ضیاء کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا اور اس مقصد کے لیے انہوں نے ایچ ای سی کے ایڈوائزر مظہر سعید کی سربراہی میں ایک اور تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی۔
، جس میں ڈی جی آئی ٹی نذیر حسین اور ڈائریکٹر نوید بھی شامل تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان تمام افسران کا گریڈ ڈاکٹر ضیاء سے کم تھا، کیونکہ ڈاکٹر ضیاء ایم پی ون گریڈ کے افسر ہیں جبکہ حیران کن طور پر ان ماتحت افسروں کو بھی ڈاکٹر ضیا کی انکوائری کمیٹی کا ممبر بنایا گیاجو ڈیپارٹمنٹ لیپ ٹاپ کی خریداری میں تاخیر کا باعث بنا۔انہوں نے بتایا کہ مظہر سعید کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی نے ڈاکٹر ضیاء کو تاخیر کا باعث قرار دیا جس کے بعد ڈاکٹر مختار نے پرفارمینس اینڈ ایویلیوایشن کمیٹی کو ڈاکٹر ضیاء کی بطور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کارکردگی جانچنے کے احکامات جاری کئے۔
جس کے سربراہ وہ خود تھے یوں انہوں نے اپنے راستے کا سب سے بڑا پتھر اپنے طور ہٹا دیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ڈاکٹر مختار کئی ارب روپے کے منصوبوں میں ڈاکٹر ضیاء کی مداخلت سے نالاں تھے، جن میں لیپ ٹاپس کی خریداری اور ورلڈ بینک کا ایک بڑا منصوبہ بھی شامل ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر مختار کا عہد بطور چیئرمین دو ماہ بعد مکمل ہو رہا ہے اور وہ بارہا کہتے رہے کہ اس مدت کے اختتام سے قبل ڈاکٹر ضیا کا بندوبست کر کے جائیں گے انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر ضیاء کو ڈاکٹر مختار کے بعد چیئرمین کے عہدے کے لیے مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا تھا۔
، جبکہ ڈاکٹر مختار کی بطور مدت چیئرمین مدت کے خاتمے کے بعد نئے چیئرمین کا چارج بھی بطور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ضیا کے پاس جانا تھا جس کے باعث ڈاکٹر مختار کو اندیشہ تھا کہ ڈاکٹر ضیاء ان کی مبینہ بے ضابطگیوں اور کرپشن کے معاملات کو منظر عام پر لا سکتے ہیں۔
اسی وجہ سے انہوں نے ڈاکٹر ضیاء کو ایک قابل اعتماد افسر سے تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ مظہر سعید سب سے سینئر افسر نہیں، بلکہ رضا چوہان ان سے سینیئر ہیں، لیکن چونکہ ڈاکٹر مختار رضا چوہان کے بھی مخالف ہیں، اس لیے نہ صرف ان کی ترقی روکی گئی بلکہ انہیں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر نامزد بھی نہیں کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ کہ ڈاکٹر مختار کا اپنے ہی ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کے ساتھ تنازعے کی ایک پوری تاریخ ہے اس سے قبل انہوں نے ڈاکٹر ارشد کو بھی مبینہ سرقہ نویسی کے الزام میں عہدے سے ہٹایا تھا۔
، جس پر ڈاکٹر ارشد نے بعد میں ایچ ای سی افسران کے خلاف ہتکِ عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا جو ابھی تک چل رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ چند معاملات ہیں جو ایچ ای سی کے اندرونی حالات اور انتظامی تنازعات کو بے نقاب کرتے ہیں جبکہ بہت سارے معاملات ایسے بھی منظر عام پر آنے کے امکانات ہیں جب ڈاکتر مختار چئیرمین کے عہدے سے ہٹ جائیں گےتعلیمی حلقوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ضیاء القیوم کی برطرفی اچانک نہیں بلکہ ایک طویل عرصے سے جاری اندرونی کشمکش کا نتیجہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایچ ای سی جیسے قومی ادارے میں اس نوعیت کے تنازعات سے تعلیمی منصوبے اور اسکیمیں متاثر ہو رہی ہیں، جن کا خمیازہ طلبہ اور نظام تعلیم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس سارے عمل سے ایک تاثر یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ ادارے کے اندر شفاف احتساب اور غیر جانبدار انکوائری کا فقدان ہے۔تعلیمی حلقوں کا مزید کہنا تھا کہ اگر کسی افسر کی رائے یا اختلاف کو ذاتی انا کا مسئلہ بنا لیا جائے تو اس سے نہ صرف ادارے کا وقار متاثر ہوتا ہے بلکہ پالیسی سازی اور عمل درآمد کا پورا نظام بھی غیر مستحکم ہو جاتا ہے۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ادارے میں داخلی احتساب کا ایسا نظام قائم کیا جائے جو غیر جانبدار، شفاف اور میرٹ پر مبنی ہو۔ذرائع کے مطابق ایک وفاقی وزیر 2023 میں ڈاکٹر ضیاء کی بطور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر تعیناتی پر ڈاکٹر مختار سے ناخوش تھے اور بعد ازاں انہوں نے وزیراعظم کو ڈاکٹر مختار کے خلاف چارج شیٹ پر مشتمل ایک خط بھی تحریر کیا تھا انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل اس وفاقی وزیر اور ڈاکٹر مختار کے درمیان ناراضگیوں کا خاتمہ ہوا تو وفاقی وزیر نے ڈاکٹر مختار کو ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر ضیاء کو کسی صورت بطور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عبوری وقت کے لئے چیئرمین ایچ ای سی کا چارج نہ لینے دیں اور انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیں تو وہ (وفاقی وزیر) ڈاکٹر مختار کی ایک مرتبہ پھر چیئرمین ایچ ای سی تعیناتی کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔
انہوں نے بتایا کہ وفاقی وزیر نے ڈاکٹر مختار کے ذریعے ڈاکٹر ضیاء القیوم کا پتہ صاف کروایا ہے اب وہ ڈاکٹر مختار کی بھی ایک مرتبہ پھر چیئرمین ایچ ای سی تعیناتی میں کوئی معاونت نہیں کریں گے اور ڈاکٹر مختار بھی حسرتیں لئے ایچ ای سی سے فارغ کر دئیے جائیں گے۔
اس سلسلے میں روزنامہ بیٹھک نے جب ڈاکٹر مختار اور ڈاکٹر ضیا کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا تو وہ رابطے میں نہ آ سکے۔انہوں نے بتایا کہ مظہر سعید کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی نے ڈاکٹر ضیاء کو تاخیر کا باعث قرار دیا جس کے بعد ڈاکٹر مختار نے پرفارمینس اینڈ ایویلیوایشن کمیٹی کو ڈاکٹر ضیاء کی بطور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کارکردگی جانچنے کے احکامات جاری کئے جس کے سربراہ وہ خود تھے یوں انہوں نے اپنے راستے کا سب سے بڑا پتھر اپنے طور ہٹا دیا۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں