بجٹ محض مالیاتی دستاویز نہیں ملکی ترقی کی سمت متعین کرنیکاموقع ہے(وی سی جامعہ زکریا)

بی زیڈ یو ملتان کا سیمینار: وفاقی بجٹ 2025 اور پاکستان کی معیشت پر بصیرت افروز بحث

ملتان ( خصوصی رپورٹر)بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے سکول آف اکنامکس کے ایگزیکٹو کلب کے زیرِ اہتمام ایک اہم پری بجٹ سیمینار بعنوان وفاقی بجٹ 2025 پاکستان کی معیشت کے لیے مواقع اور چیلنجز کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار میں ملک کے معروف ماہرین اقتصادیات، محققین اور پالیسی سازوں نے شرکت کی اور وفاقی بجٹ کے تناظر میں موجودہ معاشی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے مستقبل کے لیے پالیسی تجاویز پیش کیں۔
وائس چانسلر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ڈاکٹر محمد زبیر اقبال نے سیمینار کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ محض مالیاتی دستاویز نہیں بلکہ پاکستان کی ترقی کی سمت متعین کرنے کا موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیاں محض تعلیم کے مراکز نہیں بلکہ قومی پالیسی سازی میں رہنمائی فراہم کرنے والے ادارے بھی ہیں۔
انہوں نے پروفیسر ڈاکٹر محمد رمضان شیخ ڈائریکٹر، اسکول آف اکنامکس کی اس بامقصد اور قومی نوعیت کے سیمینار کے انعقاد پر خصوصی طور پر تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر رمضان شیخ اور ان کی ٹیم نے جس محنت، بصیرت اور قومی جذبے کے تحت یہ علمی نشست منعقد کی ہے، وہ نہایت قابلِ ستائش ہے۔
ایسے اقدامات بی زیڈ یو کو علمی قیادت کا مرکز بناتے ہیں اور طلبہ و اساتذہ کو قومی معاملات میں کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔وائس چانسلر پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس پروفیسر ڈاکٹر ندیم جاویدا ور ممبر پلاننگ کمیشن نے کلیدی خطاب میں اُڑان پاکستان وژن کو اجاگر کیا جس کا مقصد پاکستان کو 2035 تک ایک کھرب ڈالر کی معیشت بنانا ہے۔ انہوں نے Es 5 فریم ورک۔برآمدات، ای۔پاکستان، ماحولیات، توانائی اور مساوات و بااختیاری کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ 2025-26 اس وژن کو عملی جامہ پہنانے کی بنیاد بنے گا۔
وائس چانسلر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور پروفیسر ڈاکٹر محمد عمر چوہدری نے بیرونی کھاتوں، تجارتی خسارے اور مالیاتی گنجائش کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں برآمدات پر مبنی پالیسی اپنانا ہوگی اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دے کر خود انحصاری کی طرف بڑھنا ہوگا۔
ڈائریکٹر اسکول آف اکنامکس، بی زیڈ یوپروفیسر ڈاکٹر محمد رمضان شیخ نے موجودہ بجٹ کے تناظر میں مہنگائی، کم سرمایہ کاری، بے روزگاری اور توانائی سبسڈی کے مسائل کو اجاگر کیا۔ انہوں نے تجویز دی کہ حکومت غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرے، تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دے، اور سماجی تحفظ کے دائرہ کار کو وسیع کرے تاکہ پائیدار ترقی ممکن ہو سکے۔
پروفیسر سکول آف اکنامکس پروفیسر ڈاکٹر محمد ظاہر فریدی نے زرعی ترقی اور دیہی فلاح و بہبود پر توجہ دیتے ہوئے کہا کہ زراعت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اور وفاقی بجٹ کو اس شعبے کی بہتری کے لیے تحقیق، آبپاشی، جدید ٹیکنالوجی، اور دیہی بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔
سینئر ماہر اقتصادیات پروفیسر ڈاکٹر طلعت انور نے معیشت میں پائے جانے والے ساختی مسائل جیسے کم بچت، کم سرمایہ کاری، اور بلند مالیاتی خسارے کو اجاگر کیا۔ انہوں نے تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس میں کمی، نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی، اور سماجی تحفظ کے پروگراموں میں توسیع کی تجاویز دیں۔چیئرپرسن ڈیپارٹمنٹ آف اسپورٹس سائنسز، بی زیڈ یوپروفیسر ڈاکٹر سیدہ عذرا بتول نے تعلیم اور صحت کے شعبوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور ان کے بجٹ میں حصے میں اضافے کی ضرورت پر زور دیا۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر آف اکنامکس ڈاکٹر فاطمہ فاروق نے سیمینار کی نظامت کے فرائض انجام دیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سیمینار تحقیق پر مبنی پالیسی مکالمے کی بہترین مثال ہے اور اس میں جنوبی پنجاب جیسے علاقوں کی شمولیت کو یقینی بنانے کی سنجیدہ کوشش کی گئی۔
اسسٹنٹ پروفیسر اسکول آف اکنامکس ڈاکٹر رشید احمدنے ماہرین کی تجاویز کو سراہا اور کہا کہ تعلیمی اداروں کو قومی پالیسی سازی سے جوڑنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سیمینار کے اختتام پر شرکاء کے سوالات کے جوابات دیے گئے، معزز مہمانوں کو اعزازی شیلڈز پیش کی گئیں۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں