ڈاکٹر عبد القدوس صہیب ایل پی آر رکوانے کے لیے سرگرم: بی زیڈ یو میں نئی بحث
ملتان (بیٹھک انوسٹیگیشن سیل) ڈائریکٹر اسلامک ریسرچ سنٹر و ادارہ تصوف وعرفانیات بہاءالدین زکریا یونیورسٹی (بی زیڈ یو) ڈاکٹر عبد القدوس صہیب اپنی بطور پروفیسر لیو پریپیریٹری ٹو ریٹائرمنٹ (ایل پی آر) ریجکٹ کروانے کے لیے متحرک ہو گئےیونیورسٹی ذرائع کے مطابق اس وقت یونیورسٹی میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالقدوس صہیب کی ایل پی آر کا معاملہ پورے زور شور سے زیر بحث ہے۔انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی میں انتہائی با اثر تصور کئے جانے والے پروفیسر صہیب کی ایل پی آر کی درخواست وائس چانسلر کے دفتر میں جمع ہے۔
جس پر وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر اقبال غوری متوقع طور پر 29 مئی تک فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے بتایا ڈاکٹر صہیب جو کہ اپنے اثر و رسوخ کے بل بوتے پر یونیورسٹی کے دو سنٹرز کی ڈائریکٹرشپ پر براجمان ہیں اس وقت پوری طرح وائس چانسلر کو شیشے میں اتارنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے کہ وائس چانسلر حکومت کی ایل پی آر کے حوالے سے پالیسی کو پس پشت ڈالتے ہوئے ان کی ایل پی آر کی درخواست کو قبول کرنے کی بجائے مسترد کر دیں تاکہ ڈاکٹر مزید ایک سال یونیورسٹی میں اپنی اجارہ داری بنائے رکھے ۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر عبدالقدوس صہیب کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ 31 مئی ہے اور وہ اپنی ایل پی آر کی منظوری رکوانے کے لیے سرگرم ہیں تاکہ انہیں مزید ایک سال کی ملازمت میں توسیع مل جائے، جس سے وہ اضافی سہولیات اور فوائد سے مستفید ہو سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ اگر وائس چانسلر حکومتی پالیسی اور احکامات کو پس پشت ڈال کر ڈاکٹر صہیب کی خواہش پر اس کی ایل پی آر کی درخواست مسترد کر دیتے ہیں تو ڈاکٹر صہیب اگلے سال 31 مئی کو ریٹائر ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق، ایک طرف یہ اقدام ان لوگوں کی حق تلفی ہو گا جو ان پوسٹوں پر تعینات کے حقدار ہیں جن پر ڈاکٹر صہیب نے اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے قبضہ جمالیا ہوا ہے تو دوسری جانب اس کی ایک سال کی توسیع یونیورسٹی پر ایک اضافی بوجھ ڈالے گی جو پہلے سے ہی مالی مسائل کا شکار ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدوس صہیب کی 2013 میں شعبہ اسلامیات میں بطور پروفیسر تقرری بھی متنازعہ رہی ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ تقرری یونیورسٹی کے قواعد کے خلاف تھی اور اس وقت بھی اس پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔
تاہم اس کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ان کی تقرری کو سلیکشن بورڈ نے منظور کیا تھا، حالانکہ ان کی بطور پروفیسر تقرری کا کیس سیلیکشن بورڈ کے ممبران کو بھیجے جانے والے ایجنڈے کا حصہ نہیں تھا۔ڈاکٹر صہیب پر سرقہ سازی (پلیجرازم) کے الزامات ان کی تقرری کے بعد سے ہی لگنے شروع ہو گئے تھے اور جب 10 جولائی 2012 کو انہوں نے پروفیسر شپ کے لیے درخواست دی تھی، تب سے ہی یہ الزامات ان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دسمبر 2012 میں جب ان کا معاملہ سلیکشن بورڈ میں پیش کیا گیا، تو الفلاح انسٹی ٹیوٹ آف بینکنگ کے اس وقت کے سربراہ اور یونیورسٹی سینڈیکیٹ کے ممبر ڈاکٹر شوکت ملک نے ان کی اہلیت کو یہ کہتے ہوئے چیلنج کر دیا تھا کہ ڈاکٹر صہیب کے 17 میں سے 12 تحقیقی مقالے سرقہ شدہ ہیں اور اس معاملے پر تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا تھا جس پر ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی، جس میں یونیورسٹی کی پلیجرازم کمیٹی کے اس وقت کے سربراہ ڈاکٹر ریاض الحق طارق اور اراکین ڈاکٹر روبینہ تارین اور ڈاکٹر فاروق شامل تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر صہیب کے اثر و رسوخ کے باعث اس کمیٹی نے اپنی کارروائی کے دوران درخواست گزار ڈاکٹر ملک کو شنوائی کے لئے سرے سے طلب ہی نہ کیا اور ڈاکٹر صہیب کو الزامات سے بری کر دیا تھا، جس کے بعد، ڈاکٹر صہیب کی بطور پروفیسر ترقی کے معاملے کو اجلاس کے دوران باقاعدہ ایجنڈے کو روک کر سیلیکشن بورڈ کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا، جس نے اس وقت بھی یونیورسٹی کے حلقوں میں شدید تشویش کی لہر پیدا کر دی تھی۔
ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر خواجہ علقمہ، وائس چانسلر تعینات ہونے سے قبل خود ڈاکٹر صہیب کے خلاف شکایت کنندہ تھے اور انہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ کو ڈاکٹر صہیب کی بطور اسسٹنٹ پروفیسر غیر قانونی تقرری کے خلاف تحریری طور پر آگاہ کیا تھا۔ اس لیے، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ڈاکٹر صہیب کی بطور اسسٹنٹ پروفیسر تقرری بھی متنازعہ اور قواعد کے منافی تھی۔اس ضمن میں پروفیسر ڈاکٹر عبد القدوس صہیب سے ان کا موقف جاننے کیلئے رابطہ کیا گیا مگر وہ رابطے میں نہ آسکے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں