سی ڈی اے میں مالی بے ضابطگیاں: ڈی ڈی اوز کے پاس بھاری رقوم کا انکشاف
اسلام آباد (سپیشل رپورٹر) کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) میں مالیاتی طریقہ کار اور ضوابط سے خلاف ورزی کا انکشاف، ادارے کے مختلف ڈویژنز کے ڈرائنگ اینڈ ڈسبرسنگ آفیسرز (ڈی ڈی اوز) کے پاس 3سالوں کے دوران ایک ارب 58 کروڑ سے زائد رقوم کی موجودگی ادارے کے اپنے طے شدہ اکاؤنٹنگ کے طریقہ کار سے بھی مطابقت نہیں رکھتی۔سی ڈی اے میں موجود ذرائع کے مطابق سی ڈی اے کے مختلف ڈویژنز کے ڈی ڈی اوز نے یہ بھاری رقوم غیر ضروری طور پر اپنے پاس روکے رکھیں۔
انہوں نے بتایا کہ سی ڈی اے کے اپنے طریقہ کار (پروسیجرل) مینوئل حصہ سوئم (اکاؤنٹنگ پروسیجر) کے پیرا 257 کے تحت، ہر سال 30 جون کو کیش اکاؤنٹس کا لازمی طور پر بند کیا جانا ضروری ہےانہوں نے بتایا کہ مینوئل کا پیرا 20 یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ کیش بیلنس کی تصدیق کے بعد، بینک بیلنس کی بھی تصدیق ہونی چاہیے اور بینک سے ماہانہ بنیادوں پر اکاؤنٹس کا گوشوارہ کیش بک بند ہونے کے تین دن کے اندر حاصل کیا جانا چاہیے۔
جبکہ ماہانہ اکاؤنٹ اکاؤنٹس ڈائریکٹوریٹ کو جمع کرانے سے پہلے ایک مفاہمتی گوشوارہ (ریکنسیلیشن سٹیٹمنٹ) تیار کی جائے جو مہینے کے اختتامی اندراجات کے بعد ڈسبرسنگ آفیسر کے دستخطوں کے ساتھ کیش بک میں نقل کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ سی ڈی اے کے پروسیجرل مینوئل کے مطابق، ڈی ڈی اوز کی جانب سے وصول ہونے والی رقم، خواہ وہ نقد ہو یا بذریعہ چیک، فوری طور پر اتھارٹی کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرائی جانی چاہیے تاہم مالی سال 2021-22ء کے لیے سی ڈی اے کے اکاؤنٹس ڈائریکٹوریٹ کے حتمی یکجا شدہ کھاتوں (فائنل کنسولیڈیٹڈ اکاونٹس) کی جانچ پڑتال کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا کہ 30 جون 2022ء تک ایک ارب 58 کروڑ 32 لاکھ 54ہزار (1,583,254,000) روپے کی رقم سی ڈی اے کے مختلف ڈویژنز کے ڈی ڈی اوز کے پاس بیلنس کے طور پر ظاہر کی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اعداد و شمار کے جائزے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مذکورہ تین مالی سالوں کے دوران ڈی ڈی اوز کے پاس موجود رقوم میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا۔ انہوں نے بتایا کہ مالی سال 2019-20ء میں یہ رقم 24 کروڑ 90 لاکھ 88 ہزار روپے تھی۔ اگلے ہی مالی سال، 2020-21ء میں، یہ رقم حیران کن طور پر بڑھ کر 1 ارب 38 کروڑ 41 لاکھ 40 ہزار روپے تک پہنچ گئی، یعنی ایک سال میں 1 ارب 13 کروڑ 44 لاکھ 52 ہزار روپے کا خطیر اضافہ ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ مالی سال 2021-22ء میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور ڈی ڈی اوز کے پاس موجود بیلنس مزید 19 کروڑ 91 لاکھ 14 ہزار روپے کے اضافے سے 1 ارب 58 کروڑ 32 لاکھ 54 ہزار روپے ہو گیا۔ انہوں نے بتایا کہ بیلنس رقوم میں یہ مسلسل اضافہ ایک طرف سی ڈی اے میں مالیاتی نظم و ضبط کی کمی اور فنڈز کے غیر موثر انتظام کی عکاسی کرتا ہے جبکہ دوسری جانب ان رقوم کا ڈی ڈی اوز کے پاس بلاضرورت موجود رہنا نہ صرف مالی بے ضابطگی کے زمرے میں آتا ہے۔
بلکہ اس سے فنڈز کے غلط استعمال کا امکان بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ان کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے کے اعلیٰ حکام بشمول سی ڈی اے چیئرمین محمد علی رندھاوا، ممبر فنانس طاہر نعیم اختر بھی ان تمام بے ضابطگیوں سے اچھی طرح آگاہ ہیں مگر نجانے وہ کن مصلحتوں کی وجہ سے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیںان کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے جیسے اہم ادارے میں اس قسم کی مالی بے قاعدگیاں قومی خزانے اور عوامی اعتماد کے لیے نقصان دہ ہیں لہذا ان معاملات کی مکمل اور شفاف تحقیقات کے بعد ذمہ داران کا تعین کر کے انہیں قانون کے کٹہرے میں لانا نہایت ضروری ہے ۔
کیونکہ ڈسپوزنگ آفیسر کی جانب سے موصول ہونے والی رقم، چاہے وہ نقد ہو یا بذریعہ چیک، فوری طور پر اتھارٹی کے بینک اکاؤنٹ میں جمع نہ کرانا ایک سنگین کوتاہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ادارے میں مالیاتی امور کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا اور متعلقہ حکام اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہیں۔
عوامی اور شہری حلقوں نے وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ محسن نقوی اور سیکرٹری داخلہ خرم آغا سے معاملے کی تحقیقات کر کے اسے منطقی انجام تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے اور قومی وسائل کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں