سی ڈی اے لگژری گاڑیاں: عوامی فنڈز کی قیمت پر افسران کی شاہانہ سہولتیں
اسلام آباد (بیٹھک انوسٹی گیشن سیل) مالی وسائل کی کمی کو جواز بنا کر گزشتہ دو سالوں سے شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے والے تمام متعلقہ ڈیپارٹمنٹس کے فنڈز روک کر رکھنے والے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے انتظامی عہدوں پر فائز پانچ بڑوں نے اپنے لئے کروڑوں روپے مالیت کی لگژری گاڑیاں خرید لیں۔
ذرائع کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں ایک جانب شہریوں کو پینے کے صاف پانی، سیوریج کے نظام کی درستگی، سڑکوں کی تعمیر و مرمت اور دیگر بنیادی شہری سہولیات کی فراہمی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے، وہیں دوسری جانب ادارے کے اعلیٰ افسران عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی خطیر رقم اپنی ذاتی آسائشوں پر خرچ کر رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ سی ڈی اے بورڈ نے گزشتہ دو سالوں سے عوام کو براہ راست سہولیات فراہم کرنے والے اہم شعبہ جات، جن میں شہری خدمات، منصوبہ بندی اور ترقیاتی کام شامل ہیں۔
، کے فنڈز مالی وسائل کی عدم دستیابی کا بہانہ بنا کر روک رکھے ہیں جس کے باعث متعدد ترقیاتی منصوبے یا تو تاخیر کا شکار ہیں یا مکمل طور پر تعطل کا شکار ہو چکے ہیں، جس کا خمیازہ اسلام آباد کے شہریوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حیرت انگیز طور پر، یہی بورڈ جو عوامی منصوبوں کے لیے فنڈز کی کمی کا رونا روتا رہا ہے، اب اپنے ہی اراکین اور چیئرمین کے لیے مہنگی ترین گاڑیوں کی خریداری کر چکا ہے جس سے سے ادارے کی ساکھ اور شفافیت پر سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
سی ڈی اے ذرائع نے بتایا کہ جن اعلیٰ افسران کے لیے یہ نئی اور مہنگی لگژری گاڑیاں خریدی گئی ہیں، ان میں ادارے کے چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا سرفہرست ہیں جبکہ دیگر افسران جنہیں ان نئی گاڑیوں کی سہولت فراہم کی گئی ہے ان میں سی ڈی اے بورڈ کے اراکین بشمول ممبر ایڈمنسٹریشن طلعت محمود، ممبر فنانس طاہر نعیم اختر اور بورڈ ممبر اسفند یار بلوچ شامل ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق مجموعی طور پر پانچ اعلیٰ افسران کے لیے گاڑیاں خریدی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایک طرف ادارے کے پاس مبینہ طور پر شہر کی ترقی، عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی تکمیل اور شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے رقم موجود نہیں ہے جبکہ دوسری جانب ادارے کے سربراہ اور بورڈ ممبران کی ذاتی آسائشوں اور سہولیات پر قومی خزانے سے بے دریغ پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے۔واضح رہے کہ کچھ ہی عرصہ قبل سینیٹ کی ایک سٹینڈنگ کمیٹی نے واپڈا کی جانب سے 78 لگژری گاڑیوں کی خریداری پر شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔
، اسی طرح ایک ہفتہ قبل پلاننگ کمیشن نے بورڈ آف ریونیو کی جانب سے 179 نئی گاڑیوں کی خریداری کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے اخراجات ناقابلِ جواز ہیں۔ قبل ازیں جنوری میں بھی سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی نے ایف بی آر کی جانب سے 1010 گاڑیوں کی خریداری کی مخالفت کی تھی جس کے بعد حکومت کو یہ فیصلہ اس وقت واپس لینا پڑا تھا جب وزیر اعظم شہباز شریف کی مداخلت پر ایف بی آر کو گاڑیاں خریدنے سے روک دیا گیا تھا ۔
عوامی، سیاسی اور سماجی حلقوں نے اس معاملے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف، وزیرداخلہ محسن نقوی اور سیکریٹری داخلہ خرم آغا سے مطالبہ کیا ہے کہ سی ڈی اے میں لگژری گاڑیوں کی خریداری کے اس واقعے کی اعلیٰ سطح پر شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں