ایمرسن یونیورسٹی میں گجر کریسی: تاریخی ورثہ کرپشن کی نذر
ملتان ( بیٹھک انویسٹی گیشن سیل) لائبریری تجربہ کے حامل 68 سالہ وی سی ڈاکٹر رمضان گجر اور اس کے سہولت کاروں کی گجر کریسی، رشوت کمیشن اور کرپشن نے مدینۃ الاولیاء کے عظیم روایات و ثقافتی ورثہ کے حامل ادارےکے لڑکھڑاتے نظام کو مزید بربادی کا شکار کر دیا،ارباب اختیار کی بے حسی اور خاموشی معنی خیربن کر رہ گئی ،اس ضمن میں ذرائع کے مطابق جنوبی پنجاب کے سو سالہ عمر سے زائد ایمرسن کالج و یونیورسٹی جو تعلیم، ڈسپلن میں ایک زندہ مثال تھی۔
جہاں سے بیوروکریسی، افواج پاکستان، نامور سیاستدان، دانشوار ججز، وکلا نامور ماہر تعلیم فارغ التحصیل ہوئے۔ مگر لائبریری کے تجربہ اور مختلف اداروں میں ہراسمنٹ میں ملوث گجر وی سی کی تعیناتی اور اس کے نااہل اور کرپٹ سہولت کاروں نے اس تاریخی ادارے کا ماحول انتہائی گندا کر کے رکھ دیا ہے ،ان کاکہنا تھا کہ اب یہاں بہار کی بجائے مایوسی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ کرپشن، ٹھیکیداری کمیشن کی ہوس جب شاندار روایتی مین گیٹ توڑنے سے پوری نہ ہوئی۔
بوسن روڈ کیمپس کے قیام اور منتقلی کے ساتھ داخلی و خارجی گیٹس ایڈمن اور تدریسی بلاک کے سامنے تاریخی شاندار فوارہ گراؤنڈ تعمیر کیا گیا تھا۔جو اس ادارے کی اثار قدیم اور ثقافتی ورثہ کا حامل تھا ۔اور ایمرسن کالج اور یونیورسٹی کی پہچان تھا۔جہاں سالہا سال سے یوم ازادی پرچم کشائی اور دیگر اہم تقریب تقریبات کا انعقاد ہوتا رہا۔ گول باک گراؤنڈ ایمرسا یونیورسٹی میں موجود فوارہ جو ایک اثار قدیمہ اور تقریبا کالج کے قیام کے زمانے سے موجود تھا۔
جو انتہائی دلکش اور قابل دید ہے۔ مگر اس گجر وی سی کو یہاں کی شاندار ثقافتی ورثہ اور وسیب کی روایات سے خاص عناد ہے۔ٹھیکے داری ذہن نے اس فوارے کو تباہ کر دیا ہے۔اور اس کی جگہ پر کنوپی یا کچھ اور تعمیر کر کے پیسے کمانے کا سوچ رہا ہے۔ لائبریری سے پرنسپل حضرات اور نامور شخصیات کی کی تصویریں اور یادگاریں توڑی گئی۔ سول سوسائٹی کے احتجاج پر دوبارہ مرمت کی گئی۔ اب فوارہ گراؤنڈ میں تاریخی فوارہ کو توڑا جا رہا ہے۔ تاکہ اس میں سے مال کمایا جا سکے۔طلبہ طالبات اساتذہ نے اس پر شدید احتجاج کیا اور اس فوارہ اور فوارہ گراؤنڈ کو منہدم کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی طالبات نے کہا کہ اگر کنوپی کی مد میں رقم خود بخود کرنا مقصود ہے تو یہ کسی اور پلاٹ میں کیا جائے۔
نہ کہ اس قدیمی فوارے کو اور اس قدیمی گراؤنڈ کو جو بوسن روڈ کا ورثہ ہے تباہ کیا جائے۔ طالب علم نے اس کے خلاف مہم چلانے کا عزم کا اظہار کیا ہے۔ یاد رہے کہ یونیورسٹی میں کا ایریا چھوٹا ہونے کے باوجود بھی گجر وائس چانسلر نے تقریبا کو 10 کے قریب کنوپیاں لگانے کا کہا اس کا ٹھیکہ من پسند ٹھیکیدار کو دیا اور اس سے رقم کمانے کا طریقہ کار بنایا ہے۔یہاں سوال یہ ہے کہ گرمیوں میں تین ماہ کے لیے یونیورسٹی بند رہتی ہے جس کے بعدستمبر میں یونیورسٹی کھلے گی اور سردیوں تک کنوپیاں کی کوئی خاص ضرورت نہ ہے ۔
اس کی نسبت اگر لیبارٹریز ، واش رومز، ھاسٹل کو اپ گریڈ کا جے، کینٹین، سائیکل سٹینڈ کو اپ گریڈ کر دیا جاتا تو وہ زیادہ موزوں تھا۔جامعہ کے سنجیدہ تدریسی حلقوں ،سول سوسائٹیز اور ایمرسونین نے گورنر و چانسلر جامعہ سردار سلیم ،وزیراعلی پنجاب اور محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار سے مذکورہ صورتحا ل کا نوٹس لیتےہوئےاصلاح احوال کا مطالبہ کیا ہے ۔اس ضمن میں ترجمان جامعہ ڈاکٹر نعیم سے موقف جاننے کیلئے رابطہ کیا گیا مگر وہ رابطے میں نہ آسکے ۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں