سپریم کورٹ نے کہا: درست طریقے سے تصدیق شدہ فوٹیج قابلِ قبول ثبوت ہے
سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے تفصیلی فیصلے میں ڈیجیٹل شواہد کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی فوٹیج کو درست طریقے سے تصدیق شدہ قرار دیا جائے تو وہ ’سائلنٹ وِٹنس تھیوری‘ کے تحت بنیادی شہادت کے طور پر قابلِ قبول ہو سکتی ہے۔
جسٹس محمد ہاشم کاکڑ نے 13 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا ہے کہ ’یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں میں اس قدر شامل ہو چکی ہے کہ ہر کوئی کسی نہ کسی شکل میں اسے استعمال کر رہا ہے‘۔جسٹس محمد ہاشم کاکڑ نے اس 3 رکنی بینچ کی سربراہی کی جس نے 20 مئی کو ظاہر ذاکر جعفر کی سزائے موت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی اپیل مسترد کر دی تھی۔
یاد رہے کہ نور مقدم کے 2021 کے اندوہناک قتل نے ملک بھر میں صدمے کی لہر دوڑا دی تھی۔فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ مجرم عدالت میں ایک مایوس شخص کے طور پر سامنے آیا جس پر بینچ کے کسی بھی رکن کو کوئی ہمدردی محسوس نہیں ہوئی، تاہم بینچ کے رکن جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ وہ جلد ہی اپنا اضافی نوٹ جاری کریں گے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں