( میڈیکل بزنس ،سیاسی اثر و رسوخ کی آڑ میںکرپشن )شاہ محمود کے دست ِ راست منور قریشی کے گرد گھیرا تنگ

منور قریشی کرپشن اسکینڈل: 2 ارب روپے کی مبینہ لوٹ مار بے نقاب

ملتان (اعظم ملک ) پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ڈھائی ماہ سے لاپتہ دست راست، سابق چیئرمین یونین کونسل نمبر 40 اور معروف کاروباری شخصیت منور قریشی کے گرد گھیرا تنگ، جاری تحقیقات میں سنسنی خیز انکشافات سامنے آ گئے۔ منور قریشی پر الزام ہے کہ انہوں نے 6مختلف کمپنیوں کے ذریعے نشتر ہسپتال سمیت دو ہسپتالوں اور تین ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹیز سے چار سال کے دوران سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے دو ارب روپے وصول کیے۔
ایک خفیہ ایجنسی کی رپورٹ پر شروع ہونے والی انکوائری کے سلسلے میں متعلقہ ہسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹینڈنٹس اور چیف ایگزیکٹیو آفیسرز کے ساتھ ساتھ سابق وزیر خارجہ کے دست راست منور قریشی کو 30 جون کے لئے انکوائری کے سلسلے میں انکوائری افسر، ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز بہاولپور کی جانب سے طلبی نوٹسسز جاری کیے گئے تھے،نوٹس میں نشتر ہسپتال ملتان، فتح محمد بزدار انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ڈیرہ غازیخان اور مظفرگڑھ، ڈیرہ غازیخان اور ملتان کی ضلعی ہیلتھ اتھارٹیز کے سربراہوں کو مطلع کیا گیا کہ انہیں پنجاب ہیلتھ اینڈ پاپولیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے منور قریشی کی میڈیکل بزنس اور سیاست کی آڑ میں مبینہ غیر قانونی اقدامات بشمول کرپشن، سیاسی اثر و رسوخ کا بیجا استعمال اور اس سلسلے میں سرکاری افسران کی تعیناتیوں کے معاملے کی انکوائری کرکے ایک رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
طلبی نوٹس کے مطابق، منور قریشی متعدد میڈیکل کمپنیوں جن میں منور فارما، الحدید انٹرپرائزز، امروز فارما، گلوبل فارما، ایسٹرن میڈیکل اور پاک پبلک سیکیورٹی شامل ہیں کا مالک ہے اور اس پر الزام ہے کہ وہ میڈیکل بزنس اور سیاسی اثر و رسوخ کی آڑ میں بھاری کمائی کر رہا ہے۔
نوٹس میں کہا گیا ہے باوثوق ذرائع کے مطابق گزشتہ چار سالوں کے دوران منور قریشی نے ان کمپنیوں اور ٹھیکوں کے ذریعے دو ارب روپے کمائے ہیں۔ نوٹس میں مزید انکشاف کیا گیا کہ منور قریشی نے شاہ محمود قریشی کے فرزند اور موجودہ ایم این اے زین قریشی کے ساتھ اپنی سیاسی وابستگی اور زین قریشی کے اثر و رسوخ کو استعمال میں لاتے ہوئے درجنوں ٹھیکے حاصل کیے۔اسی طرح نشتر ہسپتال، نشتر میڈیکل یونیورسٹی اور نشتر ٹو کے سیکیورٹی کنٹریکٹس بھی منور قریشی کے بھائی سلیم قریشی کی فرم پاک پبلک سیکیورٹی کمپنی کو گزشتہ تین سالوں سے دیے جا رہے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ سیکیورٹی کنٹریکٹ کی مدت عام طور پر ایک سال ہوتی ہے تاہم منور قریشی سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے اپنے بھائی کے کنٹریکٹ کی مسلسل تجدید کرواتا رہا ہے۔
اس صورتحال نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے کہ قواعد و ضوابط کے برعکس ایک ہی فرم کو مسلسل تین سال تک کنٹریکٹ کیسے دیا جاتا رہا۔واضح رہے کہ اپریل سے منور قریشی لاپتہ ہیں اور ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ منور قریشی کہاں ہیں اس کے باوجود، انکوائری افسر نے اسے بھی انکوائری میں پیش ہونے اور اپنے حق میں دلائل، شواہد اور گواہ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم منور قریشی اپنی گمشدگی کے باعث انکوائری افسر کے سامنے پیش نہ ہو سکے ہیں۔
پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق، پی ٹی آئی دور حکومت میں پارٹی حلقوں میں منور قریشی کو زین قریشی کی ‘اے ٹی ایم مشین’ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ ان ذرائع نے دعویٰ کیا کہ شاہ محمود قریشی اور زین قریشی، منور قریشی کے کام کے لیے متعلقہ حکام کو دو ٹوک احکامات جاری کیا کرتے تھے یہاں تک کہ منور قریشی کے کام کے لیے شاہ محمود قریشی سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے بھی ناراض ہو گئے تھے اور انہوں نے عثمان بزدار کو منور قریشی کے کام کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔
یہ واقعات منور قریشی کے سیاسی اثر و رسوخ کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں۔محکمہ صحت کے ذرائع کے مطابق منور قریشی متعدد فارماسوٹیکل کمپنیوں کے لیے سرکاری اداروں میں بطور ایجنٹ کام کرتا ہے انہوں نے بتایا کہ قواعد و ضوابط کے مطابق سپلائر کے لیے لازمی ہے کہ اس کا اپنا ویئر ہاؤس ہو لیکن مخدوم خاندان کی مہربانیوں کی وجہ سے منور قریشی کا سیاسی اثر و رسوخ اس قدر زیادہ تھا کہ نہ تو اس کے پاس ویئر ہاؤس تھا اور نہ ہی ان جگہوں پر اس کے دفاتر قائم تھے جن کے ایڈریس سرکاری دستاویزات میں دیے جاتے تھےانہوں نے بتایا کہ یہ خلاف ورزیاں منور قریشی کے غیر قانونی اقدامات کو مزید نمایاں کرتی ہیں۔ان ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ شاہ عالمی مارکیٹ یا پشاور سے انتہائی سب اسٹینڈرڈ ادویات تیار کروا کر سپلائی کی جاتی تھیں۔
جبکہ متعلقہ سٹور کیپرز سے ملی بھگت کر کے کم مقدار میں ادویات فراہم کی جاتی تھیں یہاں تک کہ سٹورز میں پہنچنے والی ادویات پچاس فیصد تک کم ہوتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں سنگین نوعیت کی بے ضابطگیوں کی وجہ سے ملتان کا سابق سی ای او فیصل قیصرانی اور مظفرگڑھ کا سی ای او معطل بھی ہوئے تھے۔انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ اسی طرح ان سرکاری افسران جن کی تعیناتیاں منور قریشی، شاہ محمود قریشی اور زین قریشی کو کہہ کر کرواتا تھا کی جانب سے اکثر اوقات اسے بھاری فھ پیمنٹس بھی کی جاتی تھیں جو کہ قواعد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہے قومی خزانے پر ڈاکہ ہے۔انہوں نے بتایا کہ ان تمام الزامات کی گہرائی سے تحقیقات جاری ہیں اور مزید حقائق سامنے آنے کی توقع ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انکوائری افسر نے متعلقہ ہسپتالوں اور ہیلتھ اتھارٹی کے سربراہوں سے نے ان تمام کمپنیوں کے مالی لین دین اور ان کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں جن سے منور قریشی کا تعلق بتایا جاتا ہے تاکہ مالی بے ضابطگیوں کی نوعیت اور وسعت کا اندازہ لگایا جا سکے۔انہوں نے بتایا کہ اس معاملے میں ملوث سرکاری افسران اور ملازمین کی فہرست بھی تیار کی گئی ہے جنہوں نے منور قریشی کے مبینہ غیر قانونی اقدامات میں سہولت کاری فراہم کی یا ان سے فائدہ اٹھایا اور ان افسران اور ملازمین کے خلاف بھی سخت محکمانہ کارروائی کا امکان ہے۔محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اس کیس کو ایک مثال کے طور پر لیا جائے گا تاکہ مستقبل میں اس طرح کی کرپشن اور سیاسی اثر و رسوخ کے ناجائز استعمال کو روکا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق انکوائری کی پیش رفت سے متعلق وزارت صحت کے اعلیٰ حکام کو باقاعدگی سے آگاہ کیا جا رہا ہے اور توقع ہے کہ بہت جلد اس معاملے پر ایک جامع رپورٹ تیار کر کے پیش کی جائے گی جس کی روشنی میں مزید کاروائی کا امکان ہے ۔دوسری جانب منور قریشی کی گمشدگی کے معاملے نے بھی کیس کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے ان کے اہل خانہ، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس حوالے سے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
منور قریشی کے اہل خانہ کے قریبی ذرائع کے مطابق یہ ایک جبری گمشدگی تاہم کچھ ذرائع اسے خود ساختہ گمشدگی قرار دے رہے ہیں۔ملتان اور ڈیرہ غازیخان میں صحت کے شعبے سے وابستہ افراد میں اس انکوائری کی خبر کے بعد تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بہت سے لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ کس طرح ایک شخص اتنے بڑے پیمانے پر سرکاری اداروں کو لوٹتا رہا اور کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔عوامی حلقوں میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ انکوائری کے اس کیس میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیون نہ ہو یا وہ خود کتنے بااثر کیوں نہ ہوں۔محکمہ صحت کے ذرائع کے مطابق صحت کا شعبہ جو پہلے ہی وسائل کی کمی اور بدانتظامی کا شکار ہے اس طرح کی کرپشن سے مزید زوال پذیر ہو رہا ہے۔
اس سلسلے میں روزنامہ بیٹھک نے جب زین قریشی، منور قریشی اور فیصل قیصرانی کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا تو وہ رابطے میں نہ آ سکے

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں