ای او بی آئی میں مبینہ کرپشن: چوہدری ذوالفقار انجم کی کمپنیوں پر سنگین الزامات
اسلام آباد (سپیشل رپورٹر) ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی) ریجنل آفس ملتان کے حکام کی جانب سے مبینہ طور پر گٹھ جوڑ کرتے ہوئے ماضی میں ٹیکس، گیس، بجلی چوری اور دھوکہ دہی کے الزامات کا سامنا کرنے والے ملتان کے معروف صنعت کار چوہدری ذوالفقار انجم کے ملکیتی صنعتی یونٹس کے ہزاروں ملازمین کو ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس ایکٹ 1976 کے تحت بڑھاپے، معذوری اور وفات کی صورت میں مالی تحفظ سے محروم رکھنے کے امکان کے پیش نظر ایک شہری نے چیئرمین ای او بی آئی ڈاکٹر جواد اے شیخ کو خط لکھتے ہوئے چوہدری ذوالفقار علی انجم کی ملکیتی کمپنیوں کے ملازمین کا ڈیٹا مانگ لیا۔
ذرائع کے مطابق درخواست گزار نے اپنے خط میں ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس ایکٹ 1976 کے تحت چوہدری ذوالفقار علی انجم کی ملکیتی کمپنیوں کے ای او بی آئی کے ساتھ رجسٹرڈ ملازمین کی جامع فہرست اور ان کی رجسٹریشن کی تفصیلات فراہم کرنے کی استدعا کی ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ معلومات خاص طور پر چند مخصوص کمپنیوں کے حوالے سے طلب کی گئی ہیں جن کے بارے میں یہ تاثر موجود ہے کہ وہ چوہدری ذوالفقار علی انجم سے کسی نہ کسی طرح منسلک ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جن کمپنیوں کا ذکر درخواست میں کیا گیا ہے ان میں ایس ایم گروپ آف انڈسٹریز لمیٹڈ بھی شامل ہے جبکہ ایس ایم فوڈ میکرز لمیٹڈ کا نام بھی ان کمپنیوں کی فہرست میں موجود ہے ایس ایم فود میکرز لمیٹڈ خوراک کے شعبے میں سرگرم ہے جو ٹافیاں اور بسکٹ سمیت کھانے کی دیگر اشیاء بناتی ہے ان کا کہنا تھا کہ گگلی فوڈز لمیٹڈ بھی ان کمپنیوں میں سے ایک ہے جس کے ملازمین کے ای او بی آئی ڈیٹا کی درخواست کی گئی ہے جبکہ اس کے علاوہ، وولکا فوڈ انٹرنیشنل کے ملازمین کی تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں جو کہ فوڈ سیکٹر میں کام کرنے والی ایک اور کمپنی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اسی طرح ایک کمپنی ٹرسٹ سیکورٹیز اینڈ بروکرج لمیٹڈ کے بارے میں بھی معلومات مانگی گئی ہیں تاہم درخواست میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اس کمپنی کی براہ راست چوہدری ذوالفقار علی انجم سے وابستگی کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہےان کا کہنا تھا کہ فہرست میں سلور لیک فوڈز لمیٹڈ بھی شامل ہے جس کے ملازمین کی ای او بی آئی رجسٹریشن تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے انہوں نے بتایا کہ درخواست گزار نے ای او بی آئی سے یہ بھی استدعا کی ہے کہ مذکورہ بالا کمپنیوں کے علاوہ اگر چوہدری ذوالفقار علی انجم کی ملکیت یا شراکت داری میں کوئی اور کمپنیاں ہیں تو ان کے بارے میں بھی تفصیلات فراہم کی جائیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان اضافی کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین کی ای او بی آئی رجسٹریشن کی حیثیت کے بارے میں بھی خاص طور پر معلومات مانگی گئی ہیں۔واضح رہے کہ ای او بی آئی ایکٹ 1976 کا مقصد نجی شعبے کے ملازمین کو بڑھاپے، معذوری، اور فوتیدگی کی صورت میں مالی تحفظ فراہم کرنا ہے جس کے تحت، آجر اور ملازم دونوں ہی ادارے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ذرائع کے مطابق ای او بی آئی کی شفافیت اور کارکردگی پر ماضی میں بھی سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چوہدری ذوالفقار علی انجم ایک معروف کاروباری شخصیت ہیں اور ان سے منسلک کمپنیوں کے ملازمین کے ای او بی آئی ریکارڈ کی طلب اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ درخواست گزار ان کمپنیوں کے مزدوروں کے حقوق اور ای او بی آئی قوانین کی پاسداری کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ درخواست گزار نے نہ صرف ای او بی آئی کے اعلیٰ حکام سے ریجنل آفس ملتان کے حکام کی چوہدری ذوالفقار انجم کی مبینہ ملی بھگت کر کے اس کے صنعتی یونٹس میں کام کرنے والے ملازمین کو ان کے حق سے محروم کرنے کے خلاف پر قسم قانونی کاروائی کا فیصلہ کیا ہے بلکہ اس سلسلے میں فیڈرل انوسٹیگیشن ایجنسی سے محکمے سے تعلق رکھنے والے زمہ دار حکام جنہوں نے چوہدری ذوالفقار انجم سے مبینہ طور پر ساز باز کر رکھی ہے کے خلاف باقاعدہ طور پر تحقیقات کے لئے رابطہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ درخواست گزار سمجھتا ہے کہ ای او بی آئی جیسے ادارے جو لاکھوں مزدوروں کے مستقبل سے وابستہ ہیں، ان کے لیے شفافیت انتہائی ضروری ہے اور ای او بی آئی کے چیئرمین کو بھیجی جانے والی اس درخواست کا مقصد بھی چوہدری ذوالفقار علی انجم کے صنعتی یونٹس میں کام کرنے والے ملازمین کے حقوق کا تحفظ اور ای او بی آئی کے نظام کو مزید مضبوط بنانا ہے۔
ذرائع کے مطابق چوہدری ذوالفقار انجم پر ماضی میں بھی مختلف نوعیت کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں جن میں بجلی اور گیس کی چوری بھی شامل ہے جبکہ اس کی کاروباری سرگرمیوں کے حوالے سے دھوکہ دہی کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں، جن کی وجہ سے اس کے مالی معاملات پر سوالیہ نشان لگتے رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ایف بی آر کی جانب سے گبز فوڈ پرائیویٹ لمیٹڈ کے دفاتر میں ٹیم کی تیس دن کے لئے تعیناتی اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومتی ادارے بھی چوہدری ذوالفقار انجم کے مالی معاملات کی چھان بین کر رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ تیس دن کے لیے مانیٹرنگ ٹیم کی تعیناتی عام طور پر اسی صورت میں ہوتی ہے جب ٹیکس حکام کو کسی کمپنی کی آمدنی یا ٹیکس ادائیگی کے حوالے سے شدید شکوک و شبہات ہوں۔اس سلسلے میں روزنامہ بیٹھک نے جب چوہدری ذوالفقار علی انجم اور ریجنل ڈائریکٹر ای او بی آئی صہیب قریشی کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا گیا تو وہ رابطے میں نہ آ سکے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں