حکمرانوں کے غلط فیصلوں سے کسان برباد اور زرعی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے

پنجاب میں کسان تخت لاہور کے شاہانہ فیصلوں کے باعث برباد ہو چکا ہے اور اپنی سونے جیسی گندم کی فصل کوڑیوں کے بھاو بیوپاریوں اور فلور ملوں کو بیچ چکا ہے اب جو تنظیمیں کسان کی گندم خریدنے کے نام پر احتجاج کا ڈرامہ کر رہی ہیں یہ گدھ کی طرح حکومتی پالیسیوں سے کچلے گئے کسانوں کی لاشوں پر سیاست کر رہی ہیں یہ تمام وہ بیوپاری ہیں جو کسان سے 2700 سے 3000 توپے من یا اس سے بھی کم قیمت میں گندم خرید چکے ہیں اور اب سرکاری ریٹ پر دباو ڈال کر اسے فروخت کر رہےہیںگندم کی کٹائ پنجاب میں اپریل میں ہی شروع ہو جاتی ہے اور بارشوں کے سپیل کے باعث کسانوں کے پاس گندم اپنے پاس رکھنے یا کٹائ کیٹ کرنے کا آپشن ہی نہی تھا اور بہوپاری یہ بات جانتے تھے اس لیے چوری کے مال اور ڈانگوں کے گز والے ریٹ لگاتے رہے پاسکو کے مراکز کرپشن کے گڑھ بن چکے ہیں جہاں کسان کو گندم کے ایک دانے کا بھی بار دانہ نہی ملا سیاسی سفارش اور رشوت پر ہی تمام کام چلتا رہا اب کسی کسان کے کھیت میں گندم نہی ہے جو ہے وہ بیوپاریوں کے پاس ہے اور پنجاب حکومت جو گندم لے رہی ہے وہ انہی سے لے رہی ہے وزیر چوراک کہتے ہیں کہ کسانوں کو ساتھ لے کر چلیں گے اور ایک ایک دانہ خریدیں گے یہ ان سے خریدیں گے جہاں سے ان کو فائدہ پہنچے گاملتان شجاع آباد مظفر گڑھ رحیم یارخان کی زرخیز دھرتی کو کبھی کاٹن زون قرار دیا گیا تھا اور یہاں پیدا کی جانے والی کپاس کی پوری دنیا میں مانگ تھی اور یہ طے کیا گیا تھا کہ یہاں شوگر ملیں نہی لگیں گی لیکن سیاسی اشرافیہ کی شوگر ملیں یہاں لگیں جس سے کپاس کی پیداوار بری طرح متاثر ہوئ پھر پچھلے سیزن میں حکومت نے کپاس کے کاشتکار کو خوار کیا اور اب گندم کا کاشتکار بھی سب کچھ لٹا چکا ہے اس کے بعد اب اس کاٹن زون میں اس بار کوئ کاشتکار کپاس پر بھاری اخراجات کرنے کو تیار نہی اور ہماری کپاس جسے وائٹ گولڈ کہا جاتا تھا وہ بھی تنزلی کا شکار ہو گئی ہے صوبائ حکومت کی جانب سے اس بار کپاس کی کاشت کے لیے خصوصی مہم چلائ جا رہی ہے لیکن کسان کسی حکومتی چارے میں نہی آ رہے اور کپاس کے بجائے دیگر فصلوں کی طرف جا رہے ہیں زیادہ رقبے پر تل دیسی چاول اور دیگر فصلیں کاشت کی جارہی ہیں جن کی مدر بھی کم ہے اور اخراجات بھیپاکستان ایک زرعی ملک ہے ہماری معیشت صنعتی ہے ہی نہی زراعت پر ہی انحصار کرتی ہے لیکن حکمرانوں کی کرپشن اپنے کمیشن کے لیے گندم امپورٹ کرانے اور کپاس کے امدادی ریٹ پر بھی کسانوں کو خوار کرنے کے باعث اب کسان گندم اور کپاس کاشت کرنے سے دل برداشتہ ہو چکے ہیں جس روٹی اور آٹے کو سستا کرنے کے نعرے لگائے جارہے ہیں اس کے ریٹ تین سے چار ماہ میں بجلی اور گیس کی قیمتوں کی طرح ہوا سے باتیں کریں گے اور اس سال کپاس کی پیداوار میں نمایاں کمی متوقع ہے اور اگلے سیزن میں کسان اپنی ضرورت سے زیادہ گندم نہی اگائے گا تو ملکی معیشت کا کیا بنے گا گندم اور کپاس باہر سے امپورٹ ہو گی تو کپاس کی مصنوعات اور آٹے کے ریٹ بھی ڈالر کی قیمت پر منحصر ہوں گے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن کینے ہوں گے اور کسان کی خوشحالی پر توجہ دینی ہوگی حکومتی اداروں نے زرعی زمینوں سے سونا نہی نکالنا یہ کسان ہی ہے جو یہ مشقت کر سکتا ہے کسان کی خوشحالی اور زراعت کی بحالی میں ہی اس ملک کی بہتر معیشت مضمر ہے حکمرانوں کو اس ملک کی بہتری کے لیے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔