ملک میں قوانین اسلئے بنائے جاتے ہیں تاکہ اس ملک کی عوام بہتر زندگی گزار سکے عوام ہر کسی بھی طرف سے ہونے والے ظلم اور جبر کو روکا جا سکے۔ قانون کی تشکیل کے پیچھے یہ مقصد بھی کارفرما ہوتا ہے کہ اس سے معاشرے میں بہتری لائی جا سکے اسی لئے یہ معاشرے کے ہر ایک فرد اور طبقے پراثر انداز ہوتا ہے۔پنجاب اسمبلی سے گذشتہ دنوں منظور ہونے والا ہتک عزت بل بھی اسی مقصد کو پیش نظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔اس بل کی حمائت کرنے والوں کا خیال ہے کہ اس قانون کی تشکیل سے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہونگے جبکہ اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کا خیال ہے کہ یہ ایک کالا قانون ہے جس سے آزادی اظہار رائے کو نقصان پہنچے گا اور حکومت کے مخصوص مقاصد پورے ہونگے۔اس پہ تفصیلی بحث اور تجزیے سے پہلے آیئے دیکھتے ییں کہ پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والا یہ قانون جسے”ہتک عزت بل“کا نام دیا گیا ہے وہ اصل میں ہے کیا۔!اس قانون کے مسودے کے مطابق کوئی بھی ایسا شخص جو یہ محسوس کرے کہ کسی جانب سے اسکی ذاتی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا ہے تو وہ اس قانون کے تحت اس شخص کے خلاف کاروائی کر سکتا ہے جس نے اسکی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہو۔پنجاب اسمبلی میں منظور کیے جانے والے اس نئے قانون کے مطابق ہتک عزت سے مراد غلط یا جھوٹ پر مبنی بیان کی اشاعت نشریات اور پھیلاؤ ہے جس سے کسی شخص کو لگے کہ اس کی ساکھ مجروح ہوئی ہے یا اسے دوسروں کی نظروں میں گرایا گیا ہے یا اسے غیر منصفانہ تنقید اور نفرت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اس قانون کے تحت ایسے ٹرائبیونلز بنائے جائیں گے جو ہتک عزت کیس ثابت ہونے پر اس شخص کو تیس لاکھ روپے تک ہرجانے کی سزا سنا سکیں گے۔ان ٹرائیبیونلز کو وسیع اختیارات حاصل ہونگے جس کے سربراہ کو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے مشورے سے تعینات کیا جائیگا۔
مسودے کے مطابق اس قانون کے دائرہ اختیار میں ہر وہ شخص آ سکتا ہے جو پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا یا بطور خاص سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی شخص کے خلاف آڈیو ویڈیو نازیبا اور فحش کلمات تصاویر اشارے میسجز یا تحریری مواد شائع یا نشر کرتا ہے یا اسے سوشل میڈیا سائٹس پر پوسٹ کرتا ہے۔ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ایپلیکیشنز میں فیس بک ٹویٹر انسٹاگرام واٹس ایپ اور ٹک ٹاک وغیرہ شامل ہیں۔گویا ان پلیٹ فارمز پر کسی بھی شکل میں پھیلائی جانے والی جھوٹ پر مبنی غیر حقیقی اور غیر منتقی خبروں اور آڈیو ویڈیو پوسٹوں کی اشاعت پر ہتک عزت کا مقدمہ درج ہو سکے گا اور اس مقدمے کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر اندر یہ ٹرائبیونل دینے کے پابند ہونگے۔
اس قانون کی منظوری پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا ہے اور اسے کالا قانون قرار دیکر مسترد کر دیا ہے۔واضح رہے یہ قانون اب ”کالا ہو یا سفید“ منظور ہو چکا ہے اور گورنر کی منظوری کے بعد پنجاب میں نافد ہونے جا رہا ہے۔دوسری طرف صحافتی تنظیموں نے بھی پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے اور انکی طرف سے اسے آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا دیا ہے جو کہ وزن رکھتا ہے۔اپوزیشن کا احتجاج تو اس بناء پر سمجھ میں آتا ہے کہ وہ بطور خاص سوشل میڈیا کو اپنا ہتھیار سمجھتی ہے اور اسے استعمال کرتے ہوئے ہر اس شخص پر تنقید کرتی رہتی ہے جو اسکے نظریات اور خیالات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آجکل سوشل میڈیا بطور خاص اب ایک ایسا پلیٹ فارم بنتا جا رہا ہے جہاں اب کسی بھی شریف آدمی کی عزت محفوظ نہیں ہے۔
اس مادر و پدر آزاد میڈیا پر غریب اور بے کس گھرانوں کی لڑکیوں کی تصاویر بنا کر بلیک میل کرنا اور پیسے نہ دینے پر تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر کے ہنستے بستے گھرانوں کو جہنم زار بنا دینا بعض لوگوں نے اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے۔اور تو اور اب اس پلیٹ فارم پر صحابہ کرام کی شان اقدس میں گستاخی اور ہتک آمیز پوسٹیں موجود ہیں جو حرمت صحابہ اور ناموس صحابہ کا قانون موجود ہونے کے باوجود لگائی جا رہی ہیں اور مسلمانوں کے دل چھلنی کرکے ان میں تفرقہ بازی پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔صحابہ کرام علیہ السلام سے زیادہ عزت دار اور پاکباز شخص اور کوئی نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی بھی مسلمان اسکا دعوی! کر سکتا ہے ۔ایسے میں اگر سوشل میڈیا پہ شائع اور نشر شدہ ایسی پوسٹوں کے بنانے والوں کو سزا دینا مقصود ہے تو صحابہ کرام کی عزت اور ناموس والے قانون پر بھی عمل درامد اور انہیں سزا دینا بھی اشد ضروری ہے۔
جہاں تک صحافتی تنظیموں کے احتجاج کی بات ہے وہ بھی اس بناء پر محل نظر ہے کہ صحافتی اصولوں پر کابند رہ کر صحافت کی جائے تو پھر اس میں جھوٹ اور غیر حقیقی صحافت کی تو گنجائش ہی نہیں ہے۔ایک صحافی کا یہ کام ہی نہیں ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت گروہ یا جتھے کا دم چھلہ بن کر صحافت کرے۔حقیقت میں آج وہی شخص صحافی کہلانے کا حقدار ہے جو وقت پر نہ صرف اپنے حصے کا سچ بولتا ہے بلکہ سچ کے اظہار پر پیش آنے والی مشکلات کا سامنا بھی کرتا ہے۔صحافی تو معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے۔وہ جو کچھ دیکھتا ہے اسے نہائیت ہی خلوص اور ایمانداری سے ان لوگوں تک منتقل کر دیتا ہے جو اس کے حل کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔گویا ایک صحافی عوام اور اعلیٰ حکام کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے اور کمیونٹی کے مسائل کے حل کیلیئے اپنی کوششیں بروئے کار لا کر معاشرے کی بہتری کا باعث بنتا ہے۔
سقراط کہتا ہے کہ ایک صحافی کو تین باتوں پہ کاربند رہنا چاہیئے۔”کیا۔! بیان کردہ بات سو فیصد درست ہے“”کیا۔ ! بتائی جانے والی بات اچھی ہے“”کیا۔! بیان کردہ بات سننے والوں کے لئے مفید ہے“دوسری طرف قرآن پاک بھی اسی بات کی تلقین کرتا ہے کہ:-
”اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی اہم خبر لائے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو مبادا کسی قوم پر نادانی سے جا پڑو، پھر تمہیں اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔“(الحجرات) حکومت کو بھی اس بات پہ غور کرنا چاہیئے کہ آخر اتنی سرعت اور تیزی سے اس قانون کی منظوری کے پیچھے کیا حکمت عملی کار فرما ہے۔؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وہ اپنے چند مخصوص مفادات اور اہداف کی خاطر اس قانون کو جلد منظور کروانا چاہتی ہو۔تاہم اگر حکومت کی نیت صاف اور معاشرے میں بہتری لانا ہی انکا مقصد ہے تو ایسے قوانین بننا ضروری ہیں اور ساتھ ہی ساتھ صحافتی تنظیموں کو بھی اعتماد میں لیکر اور انکے خدشات دور کر کے اسکا نفاذ کرنا بہت ضروری ہے تاکہ اظہار رائے کی آزادی کے تصور کو بھی گزند نہ پہنچے۔