چاچو پاپڑ لے لو نا

غربت نے میرے بچوں کو تہذیب سکھا دی
سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے
صبح آفس کے لئے نکلا تو جھنگ روڈ پر مجھے ایک چھوٹا بچہ کھڑا ہوا نظر آیا جو نہی میں اس کے قریب آیا اس نے آوز لگائی،چاچو پاپڑ لے لو نا،اس کی معصوم توتلی آواز میں ناجانے کتنی محرومیوں اور مایوسیوں کا درد تھا میں نہ چاہتے ہوئے بھی رک گیا وہ میرے قریب آیامیرے چہرے پر غور سے کچھ تلاش کرتے ہوئے معصومیت سے بولا چاچو مجھے ماڈل بازار تک لے جاو گے میں وہاں پاپڑ بیجتا ہوں چاچو میرے پاپا اس دنیا میں نہیں چاچو جب وہ اس دنیا میں تھے میں کام نہیں کرتا تھا چاچو اب میں ہی کمانے والا ہوں نا چاچو میں نا بڑا ہو ں سب سے چھوٹی بہنا سکول جاتی ہے نا چاچو ماما گھر سے باہر نہیں جاتی نا میں کما کے لے جاتا ہوں نا ایک ہی سانس میں بولتا جا رہا تھا میں نے اسے کہا آو بیٹھ جاو وہ میرے پیچھے بائیک پر بیٹھ گیا اور میری شرٹ کو معصومیت سے زور سے پکڑ لیا تاکہ گر نہ جائے ابھی صبح ساڑے نو بجے کا ہی ٹائم تھا اس کہ باوجود جون کی صبح انتہائی گرم تھی گرمی کی شدت میں آضافہ ہو رہاتھا۔میں نے پوچھا بیٹے آپ وہاں گھر کے قریب ہی کیوں نہیں پاپڑ بیچتے،معصومیت بھرا جواب ملا چاچو وہاں کے لوگ نہیں خریدتے میں اسی لئے ماڈل بازار آ جاتا ہوں چاچو پتا یہاں امیر لوگ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سیر کو نکلتے چاچو ان کے بچے مجھ سے پاپڑ خرید لیتے ہیں میں نے کہابیٹے آپ شام کو آیا کرو نہ اب تو گرمی ہے لوگ گھروں میں ہیں کون خریدے گا چاچو میں تو رات آٹھ بچے تک یہیں سڑک کنارے اور ماڈل بازار کے اردگرد گھومتا ہوں نا کوئی نہ کوئی خرید ہی لیتا ہے چاچو ماما کہتی ہے رات ٹائم سے گھر آجا کر حالات خراب ہیں نا۔
روٹی امیر شہر کے کتوں نے چھین لی
فاقہ امیر شہر کے بچوں میں بٹ گیا
چہرہ بتا رہا ہے کہ اسے مارا ہے بھوک نے
حاکم یہ کہ رہا ہے کہ کچھ کھا کے مر گیا
میں اس کی معصومیت بھری باتیں سنتا جا رہا ایسے میں ماڈل بازار آ گیا اس نے آواز دی چاچو مجھے یہیں اتار دیں میں بائیک روکی وہ آرام سے نیچے اترا اور میری طرف غور سے دیکھتا ہوئے بولا چاچو مہربانی چاچو پاپڑ کھا لو میں اسے پیار دیا کچھ پیسے اسے دئے اور اسے پیار دیتے ہوئے آفس کو چل پڑ امیں نے دیکھا اس کی پرانی ٹوٹی ہوئی پلاسٹک کی چپل سے اس کا زخمی پاوں نظر آ رہا ہے جس پر گرد آلود سفید پٹی کی ہوئی تھی وہ لنگڑاتے ہوئے چل رہا ہے وہ مجھے دیر تک دیکھتا رہا مجھے یا دآرہا تھا چند ماہ قبل یہی بچہ مجھے رات آٹھ کے قریب گھر جاتے ہوئے ملا تھا اور میرے ساتھ اپنے گاوں تک گیا تھا شاید اسے نہیں پتا تھا کہ اس نے میرے ساتھ پہلے بھی سفر کیا یا وہ معصوم تو روز کسی اجنبی کے ساتھ بیٹھ کے گھر اور پھر ماڈل بازار پہنچتا ہے میں اس کی ہمت پر حیران تھا ایک پانچ چھ سال کا معصوم بچہ جو ابھی سے گھر کا بوجھ اٹھانے نکلتا ہے سارا دن سڑکوں تپتی دھوپ میں روزی تلاش کرتا ہے اس لئے کہ اس کی ماں اور چھوٹی بہن گھر پر اس کا انتظار کر رہی ہیں اس لیئے کہ ان کا اور کوئی سہارا نہیں ہے میں آفس پہنچ کے دیر تک سوچتا رہا روتا رہا کہ اس کی معصومیت پہ اس کی بے بسی پہ اس کی لاچارگی پہ اس کی غربت پہ اور اس کی ہمت پہ اس کے جذبہ پہ اس کی ماں جرات اور عظمت کو سلام کیا حوصلا ہے اس ماں کا جس نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے معصوم کو روزی کمانے کے لئے تیار کیا اتنے چھوٹے معصوم بچے کو بھیج کر وہ کیسے سکون سے گھر بیٹھتی ہو گی اتنا چھوٹا بچہ تو محلے کی دوکان سے کچھ چیز لینے جائے تو ماں باپ کو فکر ہونے لگتی ہے حوصلہ اس ماں کا جس کا پانچ چھ سال کا بچہ جھنگ روڈ جیسی مصروف شاہرہ پر سارا دن ٹریفک کے ہنگم میں یہ پکارتے ہوئے دن گذارتا ہے کہ چاچو پاپڑ لے لو نا،اس کے یہ الفاظ میرے کانوں میں سائیں سائیں کر رہے یھے میرے ذہن پر ہتھوڑے چل رہے تھے میں دیر تک روتا رہا یہ سوچتا رہا کہ ہم کتنے بے حس ہو گئے ہیں نفانفسی میں کس قدر گم ہیں اپنے اردگرد کا ذرا بھی خیال نہیں ہے اس معصوم پھول جیسے بچے کے ماموں،چاچوں تایا سمیت کوئی تو عزیز ہو گا کوئی تو رشتہ دار ہوگا نا اس کے بھی۔ اہل محلہ ہمسائے وغیرہ کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس معصوم کی مدد کریں اس کوسکول بھیجتے ہوئے ماں بیٹے کا خرچ اٹھا لیں ہم روزانہ ہزاروں روپے فضول کاموں پر لگاتے ہیں اس میں سے اگر دس فیصد بھی ایسے گھرانوں تک پہنچانے لگیں تو کسی گھر میں نوبت فاقوں پر نہ آئے کسی ماں کا معصوم بچہ روزی کی تلاش میں تپتی ہوئی دھوپ میں سڑکوں پر نہ گھومتا نظر آئے ابھی چند ماہ قبل ہی ایک بچہ مجھے ملا وہ بھی اسی عمر کا ہو گا اس نے بتایا اس کا باپ اس دنیا میں نہیں ہے اس کو سانپ نے کاٹ لیا تھا تین چھوٹے چھوٹے بہن بھائی ہیں وہ پہلے ٹائم سکول جاتا ہے اور شام کو نمکو بیچتا ہے اس کی داستان سن کے بھی میں کئی روز تک پریشان رہا تھا خدرا ایسے خاندان کا خیال رکھیں میرے خدا کسی کو ایسی مشکل میں نہ ڈالنا کسی ماں کو ایسے دن نہ دکھانا میرے مالک حوصلہ ہے ان ماوں کا جن کے جگر گوشے تپتی دھوپ میں سڑکوں کے کنارے روزی ڈھونتے ہیں دنیا میں سب سے بڑا دکھ جو ہے نہ وہ بھوک ہے غربت کی تشریع کوئی غریب ہی کر سکتا ہے بھوک کیا ہے یہ ایک ماں بتا سکتی ہے جس کے بچے بھوکے ہوں اور گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو وہ باپ بتا سکتا ہے جو بے روز گار ہو شام کو مایوس گھر لوٹے اور گھر میں بچے اس کے خالی ہاتھوں اور آسمان کی جانب دیکھ رہے ہوں اس باپ سے پوچھئے غربت کیا ہے جس کے معصوم بچے اس کی خالی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کچھ کھانے کی فرمائش کریں کسی کے بچے کے ہاتھ میں کھلونا دیکھ کر غریب کے بچے کی آنکھوں کی چمک بتا سکتی ہے محرومی کیا ہوتی ہے اس جوان سے پوچھئے جس کی ماں یا باپ علاج کا منتظر ہو اور اس کے پاس علاج کروانے کئے کچھ نہ ہو ایسی بیوا لاچار مستحق،مفلس غریب عورتیں اگر خود روزی کمانے نکلتی ہیں تو معاشرے کے گدھ انہیں ہوس بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں جو کسی کو ایک ٹائم کا کھانا نہیں کھلا سکتے وہ گناہ کے لئے ہزروں خرث کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اللہ پاک کسی شریف کو کسی کمینے کا محتاج نہ بنائے وہ ہر انسان کو اپنے خزانے سے رزق دے لوگ اگر دیتے بھی ہی تو ساتھ ذلیل بھی کرتے ہیں مالک ہمیں ایک دوسرے کا خیال کرنے ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے،