اگر پوچھا جائے کہ عوام کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے تو ایک ہی فقرے میں اس کا جواب دیا جا سکتا ہے ’’روزی ،روٹی اور بل بجلی‘‘۔صورتحال یہ ہے کہ روزی کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نوجوان طبقہ سو کالڈ ڈگریاںہاتھوں میں لیے بیکار فرسٹریشن کا شکار ہو کر منفی کاموں میں مبتلا ہو کر اپنی زندگیاں برباد کر رہا ہے اور یوں اللہ کی اس ملک کو دی ہوئی سب سے بڑی دولت جو دنیا کے شاید ہی کسی ملک کے حصے میں آئی ہو ’’ساٹھ فیصد نوجوان‘‘زندوں میں ہے نہ مُردوں میں۔ عوام کو روزی نصیب نہیں ہے سو روٹی کہاں میسر آنی ہے۔ کم و بیش آبادی کا چالیس فیصد خط غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے، اسے پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لیے لاکھ کوشش کے باوجود روح اور جسم کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے بنیادی ضرورت کھانا میسر نہیںہے۔ اس وقت ہم ان دونوں اہم ترین نکات کو چھوڑ کر صرف اور صرف تیسری چیز بجلی کےبل پر بات کرنا چاہتے ہیں جس نے عوام کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ روزی روٹی نہ ہونے کے باوجود بل بجلی ہر ماہ نئے زور و شور کے ساتھ عوام کا گلا گھوٹنے کے لیے اب موجود ہوتے ہیں اور ان کی طوالت پہلے سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ بجلی جو آتی کم ہے مگر بل باقاعدگی سے آتے ہیں اور دندناتے ہوئے آتے ہیں۔ بجلی جو عوام کو میسر ہے وہ 220 وولٹ کی ہوتی ہے مگر اس کے بلوں کے جھٹکے 440 وولٹ سے بھی زیادہ کے ہیں کہ انہیں دیکھ کر عوام پر یا تو لرزہ طاری ہو جاتا ہے یا پھر ہوش و حواس گم ہو جاتے ہیں۔ہر ماہ نیپرا عوام پر بجلی کے بم گرانے کی روش جاری رکھتا ہے جیسا کہ حال ہی میں بجلی کی قیمت تین روپے بیس پیسے بڑھانے کی خبر آ چکی ہے۔ وہ گھرانہ جہاں کھانے کے لیے روٹی میسر نہیں ہے ،مکان کرایہ پر ہے ،آمدنی بیس ہزار روپے ماہانہ ہےصرف ایک پنکھا اور دو انرجی لائٹس جلتی ہیں اور بل بجلی تیس ہزار روپے آ جاتا ہے اور مکین عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں کہ بروقت ادائیگی نہ کی تو 10 فیصد جرمانہ عائد ہونا ہے اور تین دن کے اندر اندر واپڈا والے میٹر اتار کر لے جاتے ہیں۔بیس ہزار آمدنی والا شخص 30 ہزار کا بل کیوں کر ادا کرے؟ واپڈا کی بلا سے؟ بل بجلی کا نصف حصہ ٹیکسوں سے بھرا ہوتا ہے جس کا عوام سے کوئی لینا دینا نہیں مگر وہ اسکی ادائیگی کا پابند ہے، اگر نہیں کرتا تو میٹر کٹ جاتا ہے بل کی ادائیگی کے لیے زیورات تک بیچنا مجبوری بن جاتی ہے بلکہ غریب بیچارے تو اپنی عزت کا سودا کر کے بھی اس کی ادائیگی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔عوام کو ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنا ہوتی ہے۔ بجلی چوری ہو ،فیکٹریاں مفت میں استعمال کریں ۔واپڈا ملازمین لاکھوں یونٹ مفت استعمال کریں اس کا نزلہ عوام پر گرتا ہے۔صوبہ پنجاب کے علاوہ بجلی کے بلز کم کم ہی ادا ہوتے ہیں۔ صوبہ سندھ میں بے شمار کنڈیاں لگی ہوئی ہیں۔ صوبہ بلوچستان اور صوبہ کے پی میں بل بجلی کوئی بھی ادا نہیں کرتا اور یہ سارا نزلہ پنجاب پر گرتا ہے۔ خیر ہمیں اس وقت ان تمام چیزوں کو چھوڑ کر صرف “آئی پی پیز” پر بات کرنی ہے جو جونکوں کی طرح عوام کا خون چوسنے میں مصروف ہیں اور انہوں نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ عام شخص نے تو شاید ان کا نام ہی نہ سنا ہو پڑھے لکھے لوگ صرف نام سے واقف ہیں ان کے کام سے نہیں۔ آئی پی پیز اصل میں مخفف ہے ’’انڈیپینڈنٹ پاور پلانٹس‘‘کایہ جانور پہلے پہل 1994 میں پاکستان میں در آیا۔ ہم اپنی ضرورت کی بجلی خود پیدا نہیں کر پا رہے تھے۔اپنی اس نا اہلی اور کئی کئی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کو ختم کرنے کے لیے ہم نے دوسرے ممالک کی بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو دعوت دی کہ وہ پاکستان میں اپنے پاور پلانٹس لگا کر بجلی پیدا کریں اور ہماری بجلی کی کمی کو پورا کریں،چنانچہ دوسری مرتبہ 2002 میں اور پھر 2015 اور 2020 میں ہماری اس پیشکش پر کوئی 90 کے قریب کمپنیوں نے ملک میں پاور پلانٹس لگائے۔ ان کمپنیوں کے ساتھ طویل المیعاد معاہدے کیے گئے جو تیس سال کے عرصے پر محیط تھے۔ یہ معاہدے ہی اصل میں عوام کش تھے اور انہوں نے عوام کا بھرکس نکال کر رکھ دیا، اولاً اس قدر طویل عرصے کے معاہدے محض عوام دشمنی کا شاخسانہ تھے،دوم انہیں فیول وہ بھی پٹرول کی قیمت ڈالر میں ادائیگی ہونا تھی۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے اور پٹرول کی عالمی طور پر قیمت بڑھنے سے حکومت کی ادائیگی کہاں سے کہاں چلی گئی جس کا نزلہ عوام پر بجلی کی وقتاً فوقتاً قیمت بڑھانے کی شکل میں نمودار ہوا اور اس نے عوام کا خون تک چوس کر رکھ دیا۔ ڈالر اور پٹرول کی قیمت اس وقت سے اب تک کئی گنا بڑھ چکی ہے اور عوام مسلسل اس عذاب کی سزا بھگت رہی ہے۔پھر انہیں انکم ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ،اربوں روپے پاکستان سے کما کر یہ کمپنیاں باہر لے جاتی ہیں، ڈائریکٹ ان کے ملکوں میں کھاتوں میں ڈالر کی شکل میں رقم چلی جاتی ہے۔ یہاں ہماری روایتی بے ایمانی ہمارے کام آتی ہے اور کک بیکس کی شکل میں ہمارے ارباب اختیار کے کھاتوں میں بیرون ملک از خود ان کمپنیوں کے ذریعے رقم جمع ہو جاتی ہے اور ٹیکہ عوام کو لگتا ہے۔سب سے بڑی بےایمانی اس معاہدے میں یہ ہوئی کہ ان پاور پلانٹس کی پیداواری گنجائش کے مطابق ہم رقم ادا کرنے کے پابند کر دیے گئے چاہے وہ اس پیداواری گنجائش کا محض 10 فیصد ہی بجلی کیوں نہ پیدا کریں۔ہماری ضرورت ہو نہ ہو ، ہم ہر صورت انہیں ان کی پاور پروڈکشن کپیسٹی کے مطابق قیمت ادا کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ شروع میں ہماری ضرورت 16 ہزار میگا واٹ تھی بعد ازاں 32 ہزار میگا واٹ تک پہنچ گئی مگر ہم انہیں ان کی پروڈکشن کپیسٹی یعنی 50 ہزار سے 60 ہزار میگا واٹس تک کی قیمت ڈالروں میں ادا کرتے ہیں اور یہ سارا بوجھ بجلی کے صارفین پر بجلی کے بلوں میں پڑتا ہے جس نے عوام کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے۔ اس کے باوجود یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ دس دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کیوں ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اس میں بھی وہی مافیا ملوث ہے جو اب باقاعدہ آئی پی پیز کا حصہ دار بن چکا ہے۔”پیک سیزن” گرمیوں میں ہماری بجلی کے کھپت زیادہ سے زیادہ 22 ہزار میگا واٹ ہے جبکہ سردیوں میں یہ کم ہو کر 12 ہزار میگا واٹ تک آ جاتی ہے مگر ہمیں ان کمپنیوں کی پیداواری صلاحیت کے مطابق رقم ہر صورت ادا کرنا ہوتی ہے۔ اس پر بھی عدالتی کمیشن تشکیل دے کر انکوائری ہونی چاہیے کہ اس قدر سخت معاہدے جو کسی صورت بھی عوام کے مفاد میں نہیں تھے کیوں کر کیے گئے؟ انہیں کٹہرے میں لا کر محاسبہ کرنا چاہیے۔یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہر تین ماہ بعد فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ میں بجلی کی قیمت بڑھی ہوئی ہوتی ہے، جب کبھی عالمی طور پر پٹرول کی قیمت کم ہوتی ہے تو صارفین کو اس کا مفاد تو کبھی نہیں دیا جاتا یوں یہ پاور پیدا کرنے والی کمپنیاں عوام پر جونکوں کی طرح خون چوسنے میں لگی ہوئی ہیں۔ یہ معاہدے غیر ملکی کمپنیوں سے ہوئے تھے مگر بعد ازاں پاکستان کے کاروباری ٹائیکونز نے اس میں حصہ داری شروع کر دی۔پہلے پہل ان حصہ داروں کی تعداد 35 فیصد تھی جو اب بڑھتے بڑھتے 78 فیصد تک پہنچ گئی ہے مگر یہ سب اندرون کھاتہ ہے، ریکارڈ پر ایسا نہیں ہے۔ اس طرح یہ بزنس ٹائیکونز آئی پی پیز کی اربوں ڈالر کمائی کر کے بیرون ملک لے جاتے ہیں اور ملک کو اربوں ڈالر کا ٹیکا لگاتے ہیں کہ اپنا انکم ٹیکس بھی بچاتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان پاور پلانٹس کمپنیوں کا کوئی آڈٹ نہیں ہے۔کتنا پیٹرول وہ ہم سے لیتے ہیں؟ کتنا حقیقی طور پر خرچ ہوتا ہے؟ اس کی کیا قیمت بنتی ہے؟ ہم کتنا ان کو ڈالروں میں ادا کرتے ہیں؟ 2020ء میں ایک رپورٹ سامنے آئی تھی اس کے مطابق ان کمپنیوں نے ہمیں 40 بلین روپے کا ٹیکہ لگایا تھا جو ان سے واپس لینے کی سفارش کی گئی تھی مگر بِھڑوں کے چھتے میں کوئی ہاتھ ڈالے تو کیسے؟ کہ بیشتر مالکان و حصہ دار حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں چار ایسے افراد حکومت میں شامل تھے جو آئی پی پیز کے حصے دار تھے، اب بھی موجودہ حکومت میں کئی افراد نہیں بلکہ سبھی شامل ہیں۔عوام کے لیے یہ خبر حیران کن ہوگی کہ پاکستان کے 90 افراد کا گروپ اس کاروبار سے منسلک ہے جو صرف آئی پی پیز ہی نہیں دیگر درجنوں فیکٹریوں کا مالک ہے جن میں شوگر ملز ،سٹیل ملز ،سی این جی اور دیگر ملیں شامل ہیں۔کہ ملک کا بیشتر زر مبادلہ ان کے کھاتوں میں جا رہا ہے۔ ستم پر ستم یہ کہ ہم ہر وقت ان کے نشانے پر ہیں اور بجلی کے بل طویلے کی بلا بن کر عوام کو ڈس رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق آئی پی پیز نے 10 سال میں 60 ارب کی سرمایہ کاری کی اور 400 ارب روپے منافع کمایا صرف کیپیسٹی چارجز کی مد میں 800 ارب روپے دیے گئے اور بغیر استعمال کی مد میں اس عرصے میں 300 ارب روپے دیے گئے۔ عام طور پر صنعتوں سے حاصل ہونے والا سرمایہ کہیں دس سال میں جا کر ریکور ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ منافع بخشش بنتی ہے جبکہ ان آئی پی پیز نے دو سے چار سال کے عرصے میں یہ منزل حاصل کر لی اور اب وہ برابر منافع میں جا رہے ہیں اور عوام کی گردنیں دبوچ کر بلند ٹیرف کی مار دے کر بجلی کے بلوں کا قہر ڈھا رہے ہیں۔ہماری سمجھ سے یہ بات باہر ہے کہ ان جونکوں کو پالنے کا آخر مقصد کیا ہے۔عوام بجلی کے بڑھتے بلوں سے تنگ آ چکے ہیں۔عوام میں بغاوت کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے اور ڈر ہے کہ کسی وقت یہ لاوا پھٹ نہ پڑے۔ اب جب کہ 30 سال کا طویل دورانیہ اگلے سال ختم ہو رہا ہے1994ء کے آئی پی پیز سے معاہدے مزید نہ کیے جائیں کہ ہمیں اس قدر بجلی کی ضرورت نہیں ہے۔ جن کمپنیوں کی میعاد ابھی باقی ہے ان کے معاہدوں کی تجدید وقت کی ضرورت ہے۔ ان سے بات چیت کر کے رعایت حاصل کی جائے جس میں عوامی مفاد سب سے پہلے سامنے رکھا جائے۔ مزید معاہدوں سے باز آیا جائے۔موجودہ آئی پی پیز کو اس بات کا بھی پابند کیا جائے کہ دیگر کمپنیوں مثلا آٹو کمپنیاں جنہیں پابند کیا گیا تھا کہ وہ پانچ سال کے بعد صد فیصد مقامی طور پر موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے پرزے بنا کر گاڑیاں مارکیٹ میں لائیں گے۔ انہیں شروع میں تو پابند نہیں کیا گیا تھا مگر اب معاہدوں میں یہ شرط عائد کی جائے کہ وہ مقامی طور پر پاکستان میں پلانٹ سازی کو فروغ دیں تاکہ جونہی ان کے معاہدے ختم ہوں ہم مقامی طور پر خود بجلی پیدا کر سکیں یا ان کے موجودہ پلانٹس 20 فیصد قیمت پر خرید لیے جائیں تاکہ ہم خود ان سے استفادہ کر سکیںان آئی پی پیز کی جونکوں نے ہماری زراعت اور انڈسٹری کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے،عوام بدحال ہو چکے ہیں،کچھ تو عوام کا ۔کریں۔