نام نہاد صحافی اور اسلام آباد پولیس

ہم ہمیشہ پولیس کے خلاف بات کرتے ہیں لیکن اپنے اندر موجود نام نہاد صحافیوں کی بات کیوں نہیں کرتے یہ نام نہاد صحافی بلیک میلنگ کرتے ہیں جب کوئی بلیک میل نہیں ہوتا تو اس کے ساتھ مسئلہ بنا کر تھانے کو شامل کرکے اس پر جھوٹی ایف آئی آر درج کروا دیتے ہیں پولیس بھی ان کےلیے استعمال ہوجاتی ہے، پولیس پر بات کروں تو پولیس کی قربانیاں اپنی جگہ قابلِ ستائش ہیں،مگر پولیس میں کالی بھیڑیں بھی ہیں اُن کا محاسبہ ضروری ہے،معاشرے میں جرائم بڑھ جائیں تو تمام ریفارمز اور ترقی بے معنی ہو جاتی ہیں، اعلی پولیس افسروں کو تھانوں میں کرپٹ اہلکاروں کے خلاف فوری کاروائی کرنی ہوگی، شہریوں کی سنوائی آسان ہونی چاہیے شہریوں کو تھانے میں زلیل کرنے کا بھی فوری نوٹس لینا چاہیے، اس وقت اسلام پولیس بےشک بہت اچھا کام کر رہی ہے اور اس کے رزلٹ بھی سامنے آرہے کہ جرائم میں ڈکیتیوں میں پہلے سے کئی گنا زیادہ کمی آئی ہے،لیکن عام شہری جو روٹین میں اپنے مسئلے بیان کرنے تھانے آتے ہیں تھانے میں بیٹھے ایس ایچ اوز سمیت تمام عملے کو شہریوں کو مدد کرنی اور ان کی عزت سے بات سننی چاہئے، پولیس کی اچھائی اور برائی دنوں پر تو ہم ہمیشہ بات کرتے رہتے ہیں اور آگے بھی کرتے رہے گے اب پھر سے کچھ توجہ نام نہاد صحافیوں کی طرف جن کا صحافت سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں نا ہی ایسے لوگ صحافتی معیار اور اصولوں کے مطابق صحافی ہوتے ہیں لیکن مجبوراً ان کے لیے لفظ نام نہاد صحافی استعمال کر رہا ہوں، نام نہاد نیوز گروپس اور جعلی صحافی جو جرائم کے اڈوں سے ماہانہ اور ہفتہ وصولی کرتے ہیں، کسی نے غیر رجسٹرڈ نام سے وائس آف اٹلی کسی نے جرمنی تو کسی نے کنیڈا اور کسی نے فرانس یعنی کے وائس آف فلاں فلاں نام رکھے ہوئے ہیں پولیس اور دیگر سرکاری اداروں کے افسران کو اپنا آپ انٹرنیشنل میڈیا کا نمائندہ شو کرکے گمراہ کرتے ہیں یہ جو انٹرنیشل نامی ویب سائٹس پاکستان کے کسی قانونی ادارے سے نہیں ہوتے نا ہی ان کی کوئی قانونی حیثیت ہوتی ہے غیر رجسٹرڈ ادارے ہوتے ہیں کسی فورم بھی پر رجسٹرڈ نہیں ہوتے، کوئی یوٹیوب چینل بنا کر صحافی بنا ہوا ہے تو کسی نے چھوٹے اخبارات کو پیسے دے کر پریس کارڈ بنا رکھے ہیں، جو اخبارات صرف PDF file تک ہی بنتے ہیں یعنی باقاعدگی سے چھپتے تک نہیں کے رپوٹر بنے ہوتے ہیں کوئی کرائم رپورٹر تو کوئی کورٹ رپورٹر تو کوئی جنرل رپورٹر، تو کوئی چیف رپورٹر تو کوئی بیورو چیف تو کوئی ڈپٹی بیورو بنے ہوئے ہیں، ایسے نام نہاد صحافی مختلف تھانوں کی حدود میں پیسے اکھٹے کرنے کےلیے پیٹرول ایجنسیوں،جعلی ڈاکٹروں، بیکریوں، مختلف سٹورز، کباڑیوں، بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں پر متعلقہ مالک کے پاس سرکاری رجسٹریشن نہیں ہوتی لیکن لیکن وہ کام کر رہے ہوتے ہیں ایسے لوگوں کو پہلے تلاش کیا جاتا ہے پھر یہ نام نہاد صحافی وہاں سے بلیک میلنگ کرکے پیسے وصولی کرتے ہیں زیادہ تر تو موقع پر۔ پیسے لے کر چلے جاتے ہیں کچھ ماہانہ لگوا لیتے ہیں، ان نام نہاد صحافیوں کےلیے پولیس کا استعمال ہونا بھی لمحہ فکریہ ہے کیونکہ جہاں ان کا کام نہیں بنتا وہاں پولیس کو شامل کروا دیتے ہیں اور صحافت کے نام پر ایف آئی آر کرو ما دیتے ہیں اسلام آباد کے زیادہ تر تھانوں میں ان نام نہاد صحافیوں کے معاملات چل رہے ہیں متعلقہ تھانوں کے ایس ایچ او صاحبان ان نام نہاد صحافیوں سے وٹس ایپ گروپس میں اپنی کارکردگی دکھانے کےلیے خبریں اور میسیجز کرواتے ہیں تاکہ اس گروپس میں ان پولیس کے اعلی افسران دیکھ سکیں اور غلط فہمی کا شکار ہوں کے فلاں ایس ایچ او یا تفتیشی واقعی بہتر کام کر رہا ہے کیونکہ اس کی تعریف تو وٹس ایپ گروپس میں صحافی شیئر کر رہے ہوتے ہیں، ایسے نام نہاد صحافیوں سے اسلام آباد کے تھانوں کے کچھ ایس ایچ اوز اور تفتیشی ملے ہوئے ہوتے ہیں جو ان نام نہاد صحافیوں کے جھوٹی درخواستوں پر اپنے اوپر افسران کو غلط گائیڈ کرتے ہیں اور ان نام نہاد صحافیوں کی جھوٹی درخواستوں پر بلا وجہ کسی پر ایف آئی آر درج ہوجاتی ہے، اسلام آباد پولیس کے آئی جی صاحب، ڈی آئی جی آپریشنز، ایس ایس پی آپریشنز اور زونل ایس پیز، اے ایس پیز، ڈی ایس پیز، ایس ایچ اوز تمام اعلی افسران کو ایسے نام نہاد صحافیوں کی جھوٹی درخواستوں خود ساختہ بنائی ہوئی منگھڑت کہانیوں پر کاروائی کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور ایسے صحافیوں کی وجہ سے حقیقی صحافت کو بدنام کرنے سے بچانا چاہیے یہاں پر ایک بات ایڈ کرتا چلوں کہ اچھے اخبارات و الیکٹرانک میڈیا جو باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں اور چل رہے ہیں ان سے وابستہ صحافیوں کی خبروں اور نشاندہی پر ہی جرائم پیشہ، غیر قانونی کاموں میں ملوث افراد کے خلاف فوری کروائی کرنی چاہیے اور نام نہاد صحافیوں سے اجتناب کرنا چاہیے ۔
تمام پولیس والے بھائیوں کےلیے عرض ہے کہ صحافی عموماً ان کو کہا جاتا ہے جو صحافت یا اس سے متعلقہ شعبے جیسے مواصلات یا انگریزی میں بیچلر ڈگری حاصل کرتے ہیں۔ کچھ لوگ صحافت میں نشریاتی یا تحقیقاتی رپورٹنگ جیسے شعبے میں ماسٹرز حاصل کرنے کے بعد شامل ہوتے ہیں۔ صحافت کسی بھی معاملے یا خبر کے بارے میں تحقیق اور پھر اسے صوتی، بصری یا تحریری شکل میں بڑے پیمانے پر قارئین، ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے اور صحافت بطور پیشہ اختیار کرنے والے کو صحافی کہتے ہیں۔ گو کہ تکنیکی لحاظ سے شعبہ صحافت کے معنی کے کئی اجزاء ہیں لیکن سب سے اہم نکتہ جو صحافت سے منسلک ہے وہ عوام کو حقیقت سے باخبر رکھنے کا ہے۔ کوئی بغیر ڈگری کے بھی صحافی بننا چاہے تو کم ا ز کم موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق اس کے پاس کمپیوٹر کے استعمال اور لکھنے کی کچھ بنیادی مہارتیں ہونی چاہئیں۔ ایک صحافی کے لیے روایتی قابلیت جیسے انگریزی مواصلات، تحریر اور تخلیقی صلاحیتیں ضروری ہیں صحافت کی ایک اصطلاح جسے ’’ (yellow journalism) ‘‘ یا ’’زرد صحافت ‘‘ پکارا جاتا ہے، اخباری رپورٹنگ کا ایک انداز تھا جس میں حقائق کو پیش کرنے کے بجائے خبر کو سنسنی خیز بنا کر لوگوں تک پہنچانے پر زور دیا جاتا تھا۔ 19 ویں صدی کے آخر میں اپنے عروج کے دور میں ریاست ہائے متحدہ امریکا کو کیوبا اور اسپین کو فلپائن میں جنگ میں دھکیلنے میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ زرد صحافت کا بھی بہت عمل دخل رہا۔ توسیعی طور پر، زرد صحافت کی اصطلاح آج کل کسی بھی صحافت کی مذمت کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو خبروں کو غیر پیشہ ورانہ یا غیر اخلاقی انداز میں پیش کرتی ہے۔ ایسی خبریں جو بہتر طریقے سے رپورٹ شدہ خبروں کو پہنچانے کے بجائے لوگوں کی توجہ مبذول کرنے پر مرکوز ہوں انھیں زرد صحافت کہا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں کسی بھی خبر، تصویر یا وڈیو کو فوری طور پر لوگوں تک پہنچانے کا سب سے موثر ذریعہ واٹس ایپ ہے جسے Statistaکے حالیہ سروے کے مطابق دنیا بھر کے تقریباً دو سو کروڑ فعال صارفین استعمال کرتے ہیں۔بواٹس ایپ کو ایک برنس مین اور بیوروکریٹس سے لے کر ایک بس ڈرائیور اور حتیٰ کہ مزدوری کرنے والا شخص بھی استعمال کرتا ہے۔ اسی لیے بہت معمولی اور چھوٹے چھوٹے واقعات کی بھی وڈیوز وائرل ہو جاتی ہیں ،کیونکہ واٹس ایپ استعمال کرنے والے نوے فیصد بناء کسی تصدیق کے ہر وڈیو یا مسیج کو فارورڈ کرتے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے استعمال کے بعد پچھلے چند سالوں میں ’’صحافیوں‘‘ کی ایک نئی کھیپ متعارف کروائی گئی ہے جو نہ صرف تعلیمی بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی صحافت کی الف، ب تک سے ناواقف ہیں لیکن خود کو صحافی گردانتے اور کہلواتے ہیں۔ ان کی تعلیمی قابلیت معلوم کی جائے تو کچھ ایسے ہیں، جنھوں نے صرف میٹرک یا انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی ہوگی، اگر ان کی رپورٹنگ کی بات کی جائے تو انگریزی تو کجا انھیں اردو بھی ٹھیک سے نہ بولنا آتی ہے اور نہ لکھنا، لیکن پھر بھی رپورٹنگ کرتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد صحافت نہیں بلکہ بلیک میلنگ ہوتا ہے۔
یہ صحافی نما لوگ مختلف مضحکہ خیز ناموں سے ڈمی اخبار چھپوا کر اور واٹس ایپ پر عجیب و غریب ناموں سے نیوز گروپس بنا کر صرف سرکاری ملازمان و افسران اور خصوصاً پولیس کے افسران و ملازمان کو بلیک میل کرنے میں سرگر م عمل رہتے ہیں، کیونکہ انھیں اس بات کا اندازہ ہوچکا ہے کہ پولیس کا محکمہ ہی ایسا ہے کہ جہاں سزا پہلے سنائی جاتی ہے اور انکوائری بعد میں کروائی جاتی ہے، اگر کہیں ان کی ایک جھوٹی خبر سے کوئی پولیس کا افسر یا ملازم معطل ہو گیا تو سمجھیں کہ ان کی ’’ مارکیٹ ویلیو ‘‘ بڑھ گئی۔
پھر دیگر کرپٹ پولیس کے افسران و ملازمان ان جیسے صحافی نما لوگوں سے تعلقات بہتر رکھنے کے لیے ان کا ’’ہفتہ یا ماہانہ وظیفہ‘‘ باندھ دیتے ہیں۔ ایسے صحافی نما لوگ پہلے کسی بھی علاقے میں ہونیوالے جرم کی ادھوری اور سنسنی خیز سرخی بنا کر گروپس میں وائرل کرتے ہیں اور آخر میں لکھ دیتے ہیں کہ تفصیل جلد جاری کی جائے گی۔‘‘ اب جس شخص یا ادارے سے متعلق یہ معاملہ ہوتا ہے اگر وہ اس رپورٹر سے ’’رابطہ‘‘ کر لے تو پھر ’’ تفصیل ‘‘ کبھی شائع نہیں ہوتی، جس میں ’’ عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ‘‘ اور جہاں کسی خبر کے ساتھ آپ ’’ دبنگ‘‘ لکھا ہوا دیکھ لیں تو سمجھ جائیں کہ اس رپورٹر کے اس شخص سے کیسے ’’ تعلقات ‘‘ ہیں جس کے حق میں خبر چلائی جا رہی ہےںصرف وہ سرکاری افسران جو کسی غیر اخلاقی یا غیر قانونی کام میں شامل نہ ہوں ان جیسے صحافی نما لوگوں سے نہیں ڈرتے لیکن ایسے افسران و ملازمان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ایسی رپورٹنگ یا صحافت کو زرد نہیں بلکہ ’’ سیاہ صحافت‘‘ (Black Journalism) کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے ،کیونکہ زرد صحافت میں تو خبر کو سنسنی خیز بنا کر پیش کرنا اور اخبار بیچنا یا اپنے گروپ کی فالوونگ کو بڑھانا مقصود ہوتا ہے لیکن ’’سیاہ صحافت‘‘ میں صرف اور صرف جھوٹی خبر چلا کر کسی کی کردار کشی کرنا اور اس خبر سے ڈرا کر بھتہ خوری کرنا مقصود ہوتا ہے۔حیرت تو یہ ہے ایسے نام نہاد صحافیوں کو چند اعلیٰ سرکاری افسران بھی اپنے دفاتر میں بٹھا کر چائے پلاتے ہیں، جس کا مقصد ان کے ایک جانب اپنی قصیدہ خوانی کروانا او ر دوسری جانب اپنے کچھ مخالف کے خلاف خبریں چلوانا بھی مقصود ہوتا ہے۔ ایسے افسران ان صحافیوں کے ’’ کچھ چھوٹے بڑے کام ‘‘ بھی کر دیتے ہیں جن سے ان کا کچن کا خرچہ پورا ہوجاتا ہے۔ مجھے ایک سینئر صحافی نے جس سے میری 15 سالوں سے دوستی ہے بتایا کہ اسلام آباد پولیس میں آئی جی سے لے کر ڈی آئی جی آپریشنز تک اور نیچے دیگر افسران اور ایس ایچ اوز کی تبدیلی سے قبل پرانے والے سیٹ اپ میں اسلام آباد کے ایک اعلیٰ افسر نے مجھے کہا کہ آپ کی برادری کے کچھ افراد میرے پاس آتے ہیں اور اسلام آباد کے تھانوں میں ہیڈ محرر اور ایس ایچ اوز لگوانے کی فرمائش کرتے ہیں۔ اب ظاہر ہے یہ فرمائش ’’ فی سبیل اللہ ‘‘ تو نہیں کی جاتی ہو گی۔ ایسے ایس ایچ اوز یا ہیڈ محررز ان حضرات کے تمام ’’ مفادات ‘‘ کا خیال رکھتے ہیں۔ اس وقت سوشل میڈیا پر ایسے جعلی صحافیوں اور رپورٹرز کی بھر مار ہے جن کا ذریعہ معاش ہی بلیک میلنگ ہے۔ پولیس کو خصوصاً اس لیے ٹارگٹ کیا جاتا ہے کہ زیادہ تر آرگنائزڈ جرائم چلتے ہی پولیس کی سرپرستی میں ہیں۔ ایسے رپورٹرز ان جرائم کی نشاندھی اس لیے نہیں کرتے کہ انھیں ان جرائم سے نفرت ہے بلکہ وہ ان جرائم پیشہ لوگوں سے اپنا ’’حصہ‘‘ مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت اسلام آباد میں سب سے زیادہ پیسہ جگہ جگہ پر قائم پٹرول ایجنسیوں، ہوٹلوں، مختلف قسم کے کباڑ کے کام کرنےوالوں، منشیات فروشوں کی سرپرستی سے کمایا جا رہا ہے۔ کسی بھی علاقے میں ’’سمجھدار‘‘ پولیس افسر کسی آرگنائزڈ کرائم کی ’’موکل‘‘ دیتے ہوئے، جرائم پیشہ شخص سے اس بات کی ضمانت لیتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ’’ برساتی صحافیوں ‘‘ کو سنبھالنا ان کی ذمے داری ہے۔ یعنی وہ جرائم پیشہ شخص ایسے تمام نام نہاد اور جعلی میڈیا گروپس کے برساتی صحافیوں کو باقاعدگی سے ان کا حصہ پہنچاتا ہے تاکہ اس جرم کی خبر کسی گروپ میں نہ چلائی جا سکے۔ آرگنائزڈ کرائم کے ختم نہ ہونے کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے نہ صرف پولیس کی روزی روٹی چل رہی ہے بلکہ بے شمار ڈمی اخبارات، سوشل میڈیا نیوز گروپس کے رپورٹرز کی روزی روٹی بھی چل رہی ہے۔ حکومت کو اور خصوصاً پولیس کے اعلیٰ افسران کو چاہیے کہ وہ آرگنائزڈ کرائم کی بیخ کنی کے اقدامات کرتے ہوئے ایسے جعلی صحافیوں اور ان کے بنائے گئے نیوز گروپس اور ڈمی اخبارات کے خلاف بھی کارروائی کریں،کیونکہ یہ نام نہاد نیوز گروپس اور جعلی صحافی ان جرائم کے اڈوں سے ماہانہ اور ہفتہ وصولی کرتے ہیں خبر صرف ان کے خلاف چلاتے ہیں جہاں سے ان کی ’’حوصلہ افزائی‘‘ نہ کی گئی ہو۔ ایسے جعلی صحافیوں کی وجہ سے اچھے پرنٹ و الیکٹرانک کے اداروں کے صحافی بھی مشکلات کا شکار رہتے ہیں ان جعلی صحافی کی وجہ سے صحافت کی عزت کم ہوچکی ہے لوگ کہتے ہیں کہ یہ سارے صحافی ہی ایسے ہیں سرکاری اداروں والے بھی اصل صحافی اور جعلی صحافی میں فرق نہیں کر سکتے، پولیس کو ایسے جعلی صحافی کی حوصلہ افزائی بند کرنا ہوگی تاکہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے رپورٹرز خبر کی تلاش اور تحقیق کے بعد خبر شائع کرنے والے کی حوصلہ افزائی ہوسکے.