سیاسی پارٹیاں اس وقت ذوال کا شکار ہیں سیاسی پارٹیوں کا مستقبل ہو گا کیا یہ وہ سوال ہے جو سیاسی دلچسپی رکھنے والے ایک دوسرے سے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں سیاست کو کس جانب موڑ دیا گیا سیاست کس جانب چل نکلی ہے یہ خود ایک سوال ہے جس کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہے مفادات کی سیاست انتقامی سیاست نے عوامی سیاست کو کہیں دفن کر دیا ہے سیاست کا مطلب کبھی خدمت ہوا کرتا تھا مگر اب اس کی جگہ منافقت،اور انتقامی سیاست نے لے لی ووٹر کی عزت بچی نہ ہی کارکنان کی ووٹ کو عزت ملی نہ ووٹر کو ووٹر کو تو تب ملتی نا جب کارکنان کو ملتی یہاں تو مرکزی قائدین کے علاوہ کسی کی عزت نہیں ہے پارٹیوں میں جموریت کا نام و نشان موجود نہیں ہے پارٹیوں کے اندر پارٹیاں موجود ہیں دھڑے موجود ہیں کسی پارٹی لیڈر سے کوئی ڈاریکٹ مل نہیں سکتا کچھ مفاد پرست چاہتے ہیں کہ قائدین تک اصل بات ہی نہ پہنچ سکے جس سے قائدین حقیقت سے لا علم رہتے ہیں میں سمجھتا ہوں اگر قائد ہی حقائق سے لا علم ہوگا تو وہ قائد ہی کیسا اگر آپ میں قائدانہ صلاحتیں موجود ہیں تو آج کے دور میں آپ کسی حقیقت سے لاعلم ہے تو اس کا مطلب کے آپ میں قائد بننے کی صلاحیت موجود نہیں ہے قائد وہ ہے جس کے پاس پلان اے،بی اور سی موجود ہوں وہ کسی ایک ذرائع کا محتاج نہ ہو ہم اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ فلاح شخص کو اچھی ٹیم نہیں ملی وہ اچھا ہے پر اس کی ٹیم اچھی نہیں ہے اب جو قائد ایک اچھی ٹیم کا انتخاب نہیں کر سکتا وہ میدان میں اچھے فیصلے کیسے کرے گا جو قائد ایک دو درجن مخلص بندوں کا انتخاب نہیں کر سکتا اسے پارٹی قائد ہونے کا بھی کوئی اختیار نہیں ہونا چاہئے وہ اس لئے کہ اس میں قائدانہ صلاحیتیوں کی کمی ہے وہ اچھا لیڈر نہیں اور جو اچھا لیڈر نہیں وہ اچھا سیاست دان ہر گرز نہیں ہو سکتا ہمارا ملک آج اس حال میں اسی لئے ہے کہ ہم نے ماجھو ساجھو سب کو اپنا لیڈر مان لیا انہیں سیاستدان سمجھ لیا جس کے پاس پیسہ آ گیا چند گاڑیاں آ گئیں وہ سیاستدان بن گیا اوپر سے خاندانی اور موروثی سیاست نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا سیاسی فیملیوں کے نالائق بچے بھی ہمیں لیڈر لگنے لگتے ہیں ہم لائنوں میں لگے فلاں زندہ فلاں زندہ کے نعرے لگاتے ہوئے انہیں اپنا لیڈر مان لیتے ہیں اور جس قوم کے لیڈر ایسے ہوں پھر قوم ہم جیسی نہیں ہو گی تو کیسی ہو گی سیاست کرنا آسان نہیں ہے نہ ہر کسی کے بس کی بات ہے مگر پاکستان میں سب سے آسان اور منافع بخش کام سیاست ہے بس ایک بار کوئی وزارت مل جائے آپ آپنی نسلیں سنوار لیتے ہیں عوام جائے بھاڑ میں کیوں کی یہاں سیاست عوام کے لئے کی ہی نہیں جاتی ہے اس کے بعد آپ کے بچے پھر ان کے بچے عوام پر حکومت کرتے نظر آئیں گے یقین مانیں جب میں سیاست دانوں کے بچوں کو دیکھتا ہو ں ان کی طرز سیاست کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے ارد گرد میں رہنے والے وہ نوجوان بہت یاد آتے ہیں جن میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے یقین جانئے ہمارے نوجوان سیاسی لیڈروں کے بچوں سے زیادہ خوبصورت، ذہین ہیں بس ان میں ایک کمی ہے جوپوری نہیں کی جا سکتی وہ یہ ہے کہ وہ کسی سیاسی لیڈر کی اولاد نہیں ہے سیاست دانوں کے بچگانہ فیصلوں کو دیکھتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے اور نوجوان نسل کی تباہی یاد آتی ہے کیسے کیسے نوجوان ہیں جن میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے جن کی ملک کو ضرورت ہے وہ ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے ان نااہل نکمے لوگوں سے نوکریوں کی فریاد کرتے روز گار کی بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں یہ اصل وجہ ہے ہماری سیاسی پارٹیوں کے زوال کی یہ اپنی دشمن آپ ہیں ان کی موروثی سیاست ان کا طرز سیاست اور ان کے رویے ان کے دشمن ہیں جس کی وجہ سے یہ زوال کا شکار ہیں اور یہ الزام کہ فلاں وجہ سے پارٹی کے ساتھ یوں ہوا فلاں وجہ سے ہوا کوئی وجہ نہیں سوائے اس کے کہ ان لیڈران کے پاس کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ہے یہ کولہو کے بیل ہیں یہ وہ قائد ہیں جنہیں خود کوئی اور قائد لیڈ کرتا ہے ان کا رویہ ان کا طرز سیاست کی سب سے بڑا دشمن ہے پچھلے دنوں ایک عزیز کی کال آئی ئی عام انتخابات سے اب تک تیسری کال تھی ان کی انہوں نے فیصل آباد سے مجھ سے الیکشن سے قبل ن لیگ کی سیاسی پوزیشن پوچھی تھی جس پر میرے الفاظ تھے کہ اس بار بڑے بڑے نام الیکشن ہارتے ہوئے نظر آ رہے ہیں جس پر انہوں نے دلیل دیتے ہوئے کچھ حلقوں کا ذکر خاص کیا تھا کہ یہاں پر ریکارڈ ترقیاتی کام کر وائے گئے ہیں میں ان کی بات سن کر ہنستے ہوئے بولا بھائی جان آپ کیا سمجھتے ہیں یہاں کارکردگی کی بنا پر ووٹ ملتے ہیں ہر گز نہیں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ترقیاتی کام کروانے پر ووٹ ملیں گے اور آپ کے وہ صاحب الیکشن جیت جائیں گے تو آپ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں الیکشن سے ایک دن قبل فون آیا یہی باتیں ہوئیں اور الیکشن کے تین دن بعد کال آئی گھبرائی ہوئی آواز میں بولے یہ سب کیسے ہوا میں نے کہا بھائی جان آپ کو یاد ہوگا میں جواب کیا دیا تھا اصل میں جس لیڈر کو ئی تک نہیں پتا کہ اس کی ہار کا سبب کیا ہے اس کو لیڈر کہلوانے یا پارٹی کی نمائندگی کا حق ہونا چاہئے میرے خیال میں ہرگز نہیں میں نے اسے وجہ بتاتے ہوئے کہا بھائی جب آپ ووٹر سے منہ موڑ لیں گے پروٹوکول دکھانے لگیں گے آنے والے سائلین کو گھنٹوں باہر انتظار کروائیں گے وہ بھی بلا وجہ شہریوں پر جھوٹے مقدمات درج کر وائیں گے اندر موجود ہوتے ہوئے بھی کہا جائے گا صاحب موجود نہیں وہ میٹنگ میں ہیں تب نتائج یہی ہونگے سیاسی ڈیروں پر صاحب سے زیادہ وفادار بننے والے اصل میں ہار کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے زاتی اناوں کی خاطر لوگوں سے مخالفتیں کی دشمنیاں نبھائیں، عوام کو آپ کے کروائے گئے کاموں سے کوئی سروکار نہیں اس لئے کہ وہ آپ نے کوئی احسان نہیں کیا ان کے ٹیکس کا پیسہ تھا جو ان پر لگا دیا گیا بلکہ ان کا احسان ہے انہوں نے اس کی انکوائری نہیں کروائی کمائے ہوئے کمیشن کا حصاب نہیں مانگا ووٹر کو عزت چاہئے ان کو اپنے دکھ سکھ میں آپ کا ساتھ چاہئے جب جیت کے بعد آپ ہواؤں میں اڑتے ہو تو وہ آپ کو دیکھ کر سوچتے ہیں کہ ہمارے ووٹوں سے جیتنے والا ہمیں لفٹ نہیں کروا رہا تو وہ اپنا سارا غصہ ووٹ کی پر چی کے ذریعے نکالتا ہے ووٹر کے پاس اور کوئی اختیار نہیں ہے اور اس سے بڑا کوئی اختیار نہیں ہے نہ کوئی عہدہ ہے ووٹ ایسا عہدہ ہے جو آپ سے عہدہ چھین سکتا ہے اور پھر جب آپ اقتدار میں آ کر عوام دشمن پالیساں بنائیں گے تو وہ آپ کی شکست کا زینہ بن جائیں گی غریب کی آہ عرش ہلا دیتی ہے ناقص پالیسیوں بے روز گاری لاقانونیت اور بجلی کے بلوں نے جو عوام کا حال کیا ہے نہ جانے کتنے خاندان دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں جو بل ادا کرنے کے قابل نہیں جو روازنہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فریاد کرتے ہیں کہ مالک ایک جانب بادشاہت اور ایک جانب ایک وقت کی روٹی کو ترستی مخلوق ذوال تو آئیں گے
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں