جنگوں نے ہمیشہ انسانی سماج کو تباہی اور بربادی سے دوچار کیا ہے
ملتان (عبدالستار بلوچ) جنگوں نے ہمیشہ انسانی سماج کو تباہی اور بربادی سے دوچار کیا ہے جنگوں میں جان سے ہاتھ دھونے والوں کا خاندان متاثر ہوتا ہے بچے تیم، سہاگنیں بیوہ، بھائی بہنیں اپنے ویر جبکہ مائیں اپنے لخت جگر کھو دیتی ہیں۔ سب کے دکھ اپنی جگہ لیکن جنگ میں اپنا لخت جگر کھو کر جو دکھ ایک ماں اٹھاتی ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہا جاتا ہے کہ جنگیں ماوں کے خلاف لڑی جاتی ہیں۔ عالمی جنگوں کے دوران جنگ میں مارے جانے والے لوگوں کے آخری الفاظ میں سب سے زیادہ بولا جانے والا لفظ ماں تھا۔ یہ مانئیں ہی ہیں جو اپنی کھوکھ سے پیدا ہونے والے بچوں کو پال پوس کر خوشی خوشی وطن کی حفاظت کرنے والے ادارے میں بھرتی کرواتی ہیں اور جب ان کا بچہ وطن پر جان قربان کرتا ہے تو ان کی آنکھوں سے جو آنسو بہتے ہیں وہ انہیں شکرانے کے آنسو قرار دیتی ہیں اور کسی شہید کی ماں کہلوانے پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ تونسہ شریف کے محلے پٹھان کوٹ کے رہائشی چوبیس سالہ عبدالابرار بھی اپنی ماں کی آنکھ کا تارا تھا دو سال قبل جب ایف سی کو جوائن کیا تو اس کی غریب ماں نے بیٹے کو وطن کی حرمت پر جان دینے سے گریز نہ کرنے کی ہدایت کی اس روز ابرار کی ماں نے محلے میں مٹھائی تقسیم کروائی اور اپنی دعاوں کے آنچل کی چھاوں میں اسے ڈیوٹی پر بھیجا اور آنکھوں میں اس کے ماتھے پر سہرا سجانے کی خواب بننے لگی تو اپنے شہید بھائی کی بیٹی کو اپنے بیٹے کی دلہن بنانے کا فیصلہ کیا۔ ابرار کے ماموں مقبول نے بھی دو ہزار پندرہ میں عزیز وطن کی مٹی کی حرمت پر اپنی جان نچھاور کر دی تھی اپنے شہید ماموں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ابرار نے اپنی خاندانی روایت سے منہ نہ موڑا اور وطن پر قربان ہو گیا شہید ابرار کا محنت کش باپ عبدالرزاق سیالکوٹ میں مزدوری کرتا تھا اور دوران مزدوری اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو وہ گھر واپس آ گئے، دو گھبرو جوان بیٹوں نے باپ کو آرام کرنے کا کہا۔ ابرار کا بھائی عبدالجبار بھی وطن کی مٹی سے سرشار ہے اور افواج پاکستان میں سپاہی ہے جبکہ ابرار خود فرنٹئیر کانسٹیبلری میں سپاہی تھا جو ساڑھے ماہ بعد چھٹی گزارنے گھر واپس آ رہا تھا تو دہشت گردوں کی سفاکیت کا نشانہ بن گیا جس میں اس کے دیگر ساتھی بھی شامل تھےمیں جب تونسہ شریف اور ڈیرہ غازیخان کی معروف سیاسی اور سماجی شخصیت سردار طاہر خان بوزدار کے ہمراہ شہید کے اہل خانہ سے تعزیت کے لئے تونسہ شریف پہنچا تو پورے شہر کی فضا کو سوگوار پایا ہر آنکھ اشک بار تھی، ہر دل افسردہ تھا۔ تعزیت کے بعد ہم شہید کی لحد پر گئے اسے سلام پیش کیا، پھولوں کی چادر چڑھائی، اس کی قبر کو سبز ہلالی پرچم کی چھاوں دی اور چپ چاپ کافی دیر تک یہ سوچتا رہا کہ جب دہشت گرد شہید عبدالابرار سمیت وطن عزیز کے نہتے بیٹوں پر گولیوں کی برسات کر رہے تھے تو ان کا ضمیر نہتے لوگوں کو خون میں نہانے پر ملامت تو کر رہا ہو گا کیونکہ جنگ میں بھی نہتے لگوں کو مارنے کی ممانعت ہے اور اس لمحے کو بھی اپنے چشم تصور میں لا رہا تھا جب گولیوں سے چھلنی سینے کے ساتھ ابرار اپنی ماں کو پکار رہا ہو گا۔
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں