سائل نے عدالت کے دروازے پر خود کو آگ لگا دی

“نیسلے پاکستان کی جانب سے آصف جاوید کی برطرفی: عدالتوں میں انصاف کی کمی اور مسلسل تاخیر”

ملتان ( بیٹھک سپیشل ) ایک ایسے وقت میں اعلی عدالتوں کے ججز ایک دوسرے کے حوالے سے مخلتف قسم آئینی تنازعات سلجھا رہے ہیں معروف مشروبات بنانے والی کمپنی نیسلے جس کا ہیڈکوارٹر سوئٹزرلینڈ میں واقع ہے کی کبیروالا ضلع خانیوال میں قائم فیکٹری کے ایک ڈیری اور جوس سپیشلسٹ آصف جاوید جسے کمپنی نے مبینہ طور پر 9 سال قبل غیر قانونی طریقے سے نکال دیا تھا نے منگل کے روز لاہور ہائیکورٹ کے احاطے میں خود کو آگ لگا دی۔ آصف جاوید کا 70 فیصد زائد جسم جل گیا ہے اور اسے ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے۔
جہاں ڈاکٹرز اس کی زندگی کے حوالے سے کچھ زیادہ پر امید نہیں ہیں زخمی آصف جاوید نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں جسے ان کے فیس بک پیج پر شیئر بھی کیا گیا ہے الزام عائد کیا کہ جس عدالت میں اس کا کیس چل رہا ہے اس عدالت کا جج نیسلے کمپنی سے ملا ہوا ہے اور اسے 9 سالوں سے پیشیاں دے رہا ہے ان کا کہنا تھا کہ انہیں مار دیا گیا اور ان کے بچوں کو رول دیا گیا ہےایک روز قبل اپنے ایک ویڈیو بیان میں ارباب اختیار، میڈیا پرسنز اور نیسلے میں کام کرنے والے ملازمین کو مخاطب کرتے آصف جاوید کا کہنا تھا وہ مجبوراً یہ ویڈیو پیغام ریکارڈ کروا رہے ہیں۔
کیونکہ ان کے حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ ان کے پاس کوئی اور رستہ نہیں بچاان کا کہنا تھا کہ پچھے نو سالوں سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ وہ جو تکلیفیں، مشکلیں اور اذیتیں سہہ اور برداشت کر رہے ہیں وہ سب اس نے اپنے دوست احباب اور قریبی لوگوں سے بھی چھپا رکھی ہوئی ہیں مگر آج حالات نے مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی کہانی سب کے سامنے رکھیںان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی دس سال نیسلے پاکستان میں بطور مستقل ملازم وقف کئے۔
جس کے نتیجے میں نیسلے پاکستان نے ان کی اور ان کی بیوی بچوں کی زندگی برباد کر کے رکھ دی ان کا کہنا تھا کہ 11 جولائی 2016 کو نیسلے پاکستان نے ایک بے بنیاد شوکاز کے ذریعے ایک غیر قانونی اور نامکمل انکوائری میں ایکس پارٹی کرتے ہوئے انہیں نوکری سے برطرف کر دیا جس پر انہوں نے اس غیر قانونی برطرفی کے آرڈر کو این آئی آر سی میں چیلنج کر دیا اور تین سال کی جدو جہد کے بعد 6 سال قبل کورٹ نے انہیں بحال کر دیا ان کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے برطرفی کے حکم غیر قانونی اور نا انصافی پر مبنی قرار دیتے ہوئے 30 دن کے اندر انہیں بحال کرنے کا حکم جاری کیا تاہم نیسلے پاکستان نے عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کیا اور این آئی آر سی کے فل بینچ میں اپیل دائر کر دی۔
ان کا کہنا تھا اپیل نیسلے پاکستان کو سٹے نہیں ملا اور کمپنی نے لاہور ہائیکورٹ میں رٹ دائر کر دی جس پر جسٹس جواد الحسن نے کمپنی کو حکم جاری کیا کہ جبکہ تک کہ اپیل کا فیصلہ نہیں ہوتا عدالت میں تنخواہیں جمع کروائی جائیں یہاں تک کہ اپنے دو سال اپیل بھی خارج ہو گئی اور ہائیکورٹ میں دائر کی جانے والی رٹ بھی خارج ہو گئی ان کا کہنا تھا کہ اس (سب) کے باوجود کمپنی نے ایک اور طریقہ کار اختیار کیا کہ ٹرائل کورٹ اور فل کورٹ کے آرڈر کو ایک مرتبہ پھر ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا ۔
جو ابھی تک ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے ان کا کہنا تھا کہ کمپنی مسلسل تاخیری حربوں سے کام لے رہی ہے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ رٹ سے کچھ نہیں نکلنا ان کا کہنا تھا کہ ان کے 6 بچے 9 سال سے سکول نہیں جا رہے اور وہ بنیادی تعلیم اور صحت کے حقوق سے محروم ہیں ان کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ نو سال سے انصاف کے لئے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن آج نہ تو ان کے پاس نہ وسائل بچے ہیں اور نہ ہی امید ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ پیغام اس لیے ریکارڈ کروا رہے ہیں کہ ان کے بعد ان کا سچ دفن نہ ہو ان کا حق جھٹلایا نہ جا سکے ان کا کہنا تھا کہ ان کا روزگار نیسلے نے چھین لیا جبکہ عدالتوں نے ان کا صبر توڑ ڈالا اور ظالم نظام ان کا سب کچھ روند ڈالا۔
ان کا کہنا تھا ہائیکورٹ میں ان کا کیس کئی سالوں سے زیر التوا ہے ہر تاریخ نئی امید کو مٹی میں دفن کر دیتی ہے ان کا کہنا تھا کہ عدالت کا ایک ریڈر نیسلے والوں کے ساتھ ملا ہوا ہے اور ان کو ان کی مرضی کی کیس کی تاریخیں دیتا ہے ہر مہینے میں ایک نئی تاریخ جبکہ کبھی ایسی تاریخ دیتا ہے کہ اس دن عدالت ہوتی ہی نہیں ہے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کئی دفعہ کس اس عدالت سے ٹرانسفر کرانے کی کوشش کی مگر نیسلے والوں نے ایسا نہیں ہونے دیا اور واپس اسی عدالت میں کیس لے جاتے ہیں۔
کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ انہوں وہاں سے ریلیف ملتا ہے اور کیس کو تاخیر کا شکار کر سکتے ہیں اور فیصلہ نہیں ہونے دے رہے اور نہ ہی کسی کو کسی اور جج کے پاس جانے دے رہے ہیں اس سلسلے میں روزنامہ بیٹھک نے نیسلے پاکستان کے ترجمان سے رابطہ کیا تو انہوں نے واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ معاملہ عدالت میں ہے اس لئے کمپنی اس حوالے سے کوئی بات کرنے سے عاجز ہے۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں