روئی کے بھاؤ میں مندی ،سپنرز کا درآمدپر انحصار،جنرز مشکلات کا شکار

“ملتان کی مقامی کاٹن مارکیٹ میں روئی کے بھاؤ میں کمی”

ملتان (رپورٹ نسیم عثمان) مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے کے دوران روئی کے بھاؤ میں مجموئی طور پر مندی کا عنصر غالب رہا نیو یارک کاٹن کے وعدے کے بھاؤ میں نمایاں گراوٹ کے منفی اثرات مقامی کاٹن پر پڑ رہےہیی اسپنرز پہلے ہی درامدی روئی کی طرف مائل ہیں اکا دکا ملز مقامی روئی خرید رہی ہیں وہ بھی زیادہ تر ادھار خرید رہے ہیں۔
جنرز کے پاس روئی کا اسٹاک پڑا ہوا ہے وہ مشکلات میں ہے۔ APTMA مسلسل EFS کے متعلق حکومت سے مطالبہ کر رہا ہے EFS کی سہولت کی وجہ سے روئی یارن اور کپڑا وافر تعداد میں در آمد ہو رہا ہے جس کی وجہ سے مقامی انڈسٹری بری طرح متاثر ہو رہی ہے اب مخصوص طبقہ میں ایسا کہا جا رہا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر خصوصی طور پر ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے؟ موصولہ اطلاعات کے مطابق حکومت ٹیکسٹائل سیکٹر کے EFS کا مسئلہ حل کرنے پر نظر ثانی کررہی ہے۔
دوسری جانب ٹیکسٹائل اسپنرز درآمدی روئی پر انحصار بڑھاتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے جننگ انڈسٹری بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ حکومت نے کپاس کی بحالی کے لئے مخصوص کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں ٹیکسٹائل انڈسٹری اور جننگ انڈسٹری سے منسلک ماہرین کو شامل کیا گیا ہے اگر کمیٹی صحیح طریقے سے حکمت عملی تیار کر کے پالیسی بنائی گی اور اس پر عمل درآمد کیا جائے گا تو وہ ضرور فائدہ پہنچاسکے گی۔صوبۂ سندھ میں کوالٹی اور پیمنٹ کنڈیشن کے حساب سے روئی کا بھاؤ فی من 16000 تا 17500 روپے صوبۂ پنجاب میں 16500 تا 17500 روپے چل رہا ہے۔کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں 200 روپے کی کمی کرکے فی من 17300 روپے کے بھاؤ پر بند کیا۔
کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا بین الاقوامی کاٹن میں مندی کا تسلسل ہے نیویارک کاٹن کے وعدے کا بھاؤ فی پاؤنڈ 63.50 امریکن سینٹ کی نیچی سطح پر بند ہوا جو گزشتہ 4 سالوں کی کم ترین سطح پر ہے جس کی وجہ امریکن کاٹن کا سب سے بڑا خریدار چین کی جانب سے امریکن مصنوعات پر 15 فیصد ٹیریف عائد ہونے کے بعد نیویارک کاٹن میں زبردست مندی کا رجحان ہے۔ USDA کی ہفتہ وار برآمدی اور فروخت رپورٹ کے مطابق سال 25-2024 کیلئے 2 لاکھ 41 ہزار 500 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔ویت نام 73 ہزار 100 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔چین 46 ہزار 800 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔
پاکستان 32 ہزار 600 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔سال 26-2025 کیلئے 1 لاکھ 5 ہزار 600 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔پاکستان 75 ہزار 500 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔نکاراگوا 15 ہزار 900 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔ترکی 11 ہزار 100 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔برآمدات 3 لاکھ 34 ہزار گانٹھوں کی ہوئی۔ویت نام 1 لاکھ 100 گانٹھیں درآمد کرکے سرفہرست رہا۔پاکستان 65 ہزار 400 گانٹھیں درآمد کرکے دوسرے نمبر پر رہا۔ترکی 46 ہزار گانٹھیں درآمد کرکے تیسرے نمبر پر رہا۔علاوہ ازیں پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ 2024 کے مجموعی کپاس کے اعدادوشمار پر اظہار خیال کرتے ہوئے ساجد محمود سربراہ شعبہ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان نے کہا ہے کہ پاکستان میں کپاس کی پیداوار گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل دباؤ کا شکار ہے،۔
اور اس کا اثر نہ صرف ملکی معیشت بلکہ برآمدات، ٹیکسٹائل انڈسٹری اور زراعت سے وابستہ لاکھوں افراد پر بھی پڑ رہا ہے۔ ساجد محمود کا کہنا تھا کہ پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی 28 فروری 2025 کی رپورٹ جو آج 03 مارچ کو جاری ہوئی ہے کے مطابق کپاس کی مجموعی پیداوار میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، جو اس شعبے کے لیے ایک سنگین خطرے کی نشاندہی کرتی ہے۔ رواں سال فیکٹریوں میں پہنچنے والی کپاس کی مجموعی مقدار 55 لاکھ 24 ہزار 593 گانٹھیں ریکارڈ کی گئی، جو گزشتہ سال کے 83 لاکھ 93 ہزار 90 گانٹھوں کے مقابلے میں 34.17 فیصد کم ہے۔ اس شدید کمی کی بنیادی وجوہات میں موسمیاتی تبدیلیاں، کاشتکاری کے رقبے میں کمی، پانی کی قلت، زرعی مداخل کی قیمتوں میں اضافہ اور مناسب پالیسیوں کا عدم فقدان ہے۔ اس کمی کے نتیجے میں نہ صرف ملکی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے خام مال کی قلت پیدا ہو گئی ہے بلکہ کپاس کی درآمدات میں بھی تاریخ سازاضافہ متوقع ہے۔
ذرائع کے مطابق رواں برس 5 ارب ڈالرز کی روئی درآمد کی جائے گی جو پاکستانی معیشت کے لئے ایک اضافی بوجھ ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ پنجاب، جو پاکستان میں کپاس کی سب سے بڑی پیداوار دینے والا صوبہ ہے، اس سال شدید کمی کا شکار رہا۔ رواں سال پنجاب میں کپاس کی مجموعی پیداوار 2,717,622 گانٹھیں رہی، جو گزشتہ سال 4,278,312 گانٹھوں کے مقابلے میں تقریباً 36.49 فیصد کمی کو ظاہر کرتی ہے۔
یہ اعدادوشمار اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ پنجاب میں کپاس کی کاشتکاری کے مسائل مزید سنگین ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب سندھ میں بھی پیداوار میں کمی دیکھی گئی، لیکن یہ پنجاب کے مقابلے میں نسبتاً بہترہے۔ سندھ میں رواں سال کپاس کی پیداوار 2,806,971 گانٹھیں رہی، جو گزشتہ سال کے 4,114,778 گانٹھوں کے مقابلے میں 31.77 فیصد کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ بلوچستان کی پیداوار مستحکم رہی اور اس میں کسی بڑی کمی یا اضافے کا رجحان نظر نہیں آیا۔
دریں اثنا وزیر اعظم شہباز شریف نے کپاس کی کم ہوتی ہوئی پیداوار کا نوٹس لیتے ہوئے 15 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو فصل کی بحالی کے لیے 30 دن میں اقدامات کی سفارش کرے گی۔ وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین کو کمیٹی کا کنوینر نامزد کیا گیا ہے جو کپاس کی فصل کی صورتحال کا جائزہ لے گی اور فصل کی بحالی کے لیے پالیسی اور انتظامی مداخلت کی تجویز پیش کرے گی۔یہ بین الاقوامی معیارات، خاص طور پر آلودگی کے پیرامیٹرز کے مطابق روئی کی گانٹھوں کی مناسب درجہ بندی اور اسے معیار کے مطابق بنانے کے لیے سفارشات بھی پیش کرے گا۔
کمیٹی ملک بھر میں کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے تکنیکی تجاویز بھی پیش کرے گی۔وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے ٹیکسٹائل کے شعبے کو تمام ممکنہ معاونت فراہم کرنے کیلئے حکومت کے پختہ عزم کا اظہار کیا۔انہوں نے اس عزم کا اظہار کل بروز جمعرات اسلام آباد میں آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی قیادت سے ملاقات میں کیا ۔
وزیرخزانہ نے پاکستان کے صنعتی شعبے میں طویل مدتی استحکام اور مستقبل کی ترقی یقینی بنانے کیلئے ٹیکسیشن ، توانائی اور مالیات سے متعلق اہم مسائل کے حل کیلئے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔انہوں نے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے عہدیداران کا خیرمقدم کرتے ہوئے وفد کو یقین دلایا کہ حکومت ملکی معیشت میں ٹیکسٹائل صنعت کے اہم کردار کو تسلیم کرتی ہے اوراس کے تحفظات دور کرنے کیلئے پرعزم ہے ۔

اس سے قبل چیئرمین کامران ارشد کے زیر قیادت اپٹما کے وفد نے ٹیکسٹائل شعبے کو توانائی ، ٹیکسیشن اور مالیات سے متعلق کئی اہم مسائل پر تفصیلی پریزنٹیشن دی۔مزید براں وزیراعظم کی جانب سے ایکسپورٹ فیسیلیٹیشن اسکیم (ای ایف ایس) کا جائزہ لینے کے لیے بنائی گئی کمیٹی کا پہلا اجلاس وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و خصوصی اقدامات احسن اقبال کی زیر صدارت وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان کے ہمراہ ہوا۔
اجلاس میں سیکرٹری کامرس، پلاننگ کمیشن کے چیف اکانومسٹ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے نمائندوں اور متعلقہ وزارتوں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ سرکاری حکام کے ساتھ تفصیلی مشاورتی اجلاس میں بزنس کمیونٹی کے 60 سے زائد نمائندوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ایف بی آر نے کمیٹی کو ای ایف ایس، اس کی حالیہ ترامیم اور ان علاقوں کے بارے میں بتایا جہاں غلط استعمال کی نشاندہی کی گئی ہے۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں