“کپاس کی تباہی اور پالیسی سازوں کی خاموشی: ایک قومی المیہ”
ملتان ( خصوصی رپورٹر)پاکستان میں کپاس کی تباہی و بربادی قومی المیہ ہے۔پالیسی ساز کپاس کی بحالی میں سنجیدہ نہیں ہیں۔کپاس کی مجموعی پیداوار کا 55 لاکھ گانٹھ کی کم ترین سطح پر آنا کپاس کی بربادی نہیں قومی معیشت کی بربادی کی داستان رقم کر رہا ہے۔
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے )کے چیئرمین ڈاکٹر جسومل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امپورٹڈ روئی(درآمدی روئی)ڈیوٹی فری اور ٹیکس فری ہے جبکہ پاکستانی روئی پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے۔امریکن کاٹن کو پاکستان میں امپورٹ کے لیے فری ہینڈ حاصل ہے جب کہ پاکستانی کاٹن پر ایک درجن سے زائد ڈیوٹیز اور ٹیکس عائد ہیں۔بھاری ٹیکسوں نے کاشتکاروں اور کاروباری طبقات کو کپاس کی فصل سے بہت دور کر دیا ہے جبکہ کپاس لاوارث فصل ہو کر رہ گئی ہے۔
ملکی جننگ فیکٹریوں میں اس وقت چار لاکھ گانٹھ سے زائد روئی غیر فروخت شدہ سٹاک میں موجود ہے جس کا کوئی خریدار نہیں ہے۔ پی سی جی اے نے بطور ایسوسی ایشن کے بھرپور مہم، تحریک اور عہدے داروں،ممبران کی سر توڑ کوششوں کے باوجود کپاس کی بقاء و بحالی کے لیے حکومتی اقدامات اور نتائج سامنے نہیں آسکے ہیں۔ کپاس کی پیداوار میں اضافے کے لیے حکومتی سطح پر سود مند اقدامات نہیں کیے جا سکے ہیں۔کپاس کی بقاء و بحالی کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہ ہے۔
ہمارا اور ہمسایہ ملک کا موسم، کلچر، کاشتکاری کے طریقہ کار اور دیگر عوامل یکساں ہیں۔گزشتہ 20 سال میں ہمسایہ ملک میں کپاس کی فصل 35 ملین (تین کروڑ 50 لاکھ ) گانٹھ سے زائد ہے جبکہ وطن عزیز میں کپاس کی پیداوار پانچ سے آٹھ ملین ( 50 سے 80 لاکھ ) گانٹھ سےآگے نہیں بڑھ سکی ہے۔پاکستان کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں چوتھے نمبر سے آٹھویں نمبر پر چلا گیا ہے ۔ہمسایہ ملک میں کاشتکاروں کو حکومت کی مکمل سرپرستی اور سپورٹ حاصل ہے جبکہ ہمارے ملک میں کاشتکار لاوارث ہو چکا ہیں۔
ملک میں جب بھی کسی مسئلے کے حل کے لیے کمیٹی بنا دی جائے وہ مسئلہ کبھی حل ہوتا نظر نہیں آیا۔کپاس (وائٹ گولڈ) کی تباہی کے ذمہ دار ہمارے پالیسی ساز ہیں۔ہمسایہ ملک میں معیشت کی بہتری اور کاشتکاروں کی معاشی فلاح و بہبود کے فیصلے ان کی حکومت کرتی ہے جب کہ ہمارے یہاں سارے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں ۔
یہی ہماری ناکامی اور تباہی کی بڑی وجوہات ہیں۔کپاس کی فصل معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔پالیسی سازوں نے ریڑھ کی ہڈی کو خود ہی توڑ ڈالا ہے۔کپاس کے کاشتکاروں اور سٹیک ہولڈرز کو بیل آؤٹ پیکج دینا پالیسی سازوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں