“بلوچستان کی مسلح جدوجہد اور اس کے مستقبل پر اثرات”
ملتان(عبدالستار بلوچ سے)تاریخ خون میں ڈوبی چیخوں سے بھری پڑی ہے، ان قوموں کی چیخیں جو بندوق کے سائے میں آزادی کے خواب دیکھتی رہیں، مگر آخرکار بربادی اور مایوسی کے سوا کچھ نہ پایا۔ تشدد ایک ایسی آگ ہے جو سب سے پہلے اسی کے ہاتھ جلاتی ہے جو اسے بھڑکاتا ہے۔ بلوچستان میں آج جو لوگ مسلح جدوجہد کا نعرہ بلند کیے ہوئے ہیں، وہ درحقیقت اپنے ہی لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آزادی گولی سے نہیں، دانشمندی اور ترقی سے آتی ہے۔
جو خون بہایا جا رہا ہے، وہ بلوچستان کی مٹی کو سرخ تو کر سکتا ہے، مگر اسے سرسبز نہیں بنا سکتا۔دنیا میں کئی ایسی تحریکیں آئیں جو سمجھتی تھیں کہ بندوق کے زور پر وہ اپنی تقدیر بدل دیں گی۔ مگر آج وہی تحریکیں تاریخ کے ملبے تلے دب چکی ہیں۔ آئرلینڈ میں آئرش ریپبلکن آرمی (IRA) نے تین دہائیوں تک برطانیہ سے لڑائی کی، ہزاروں جانیں گئیں، مگر آخرکار انہیں مذاکرات کا راستہ ہی اپنانا پڑا۔ سری لنکا میں تامل ٹائیگرز نے پچیس سال تک بندوق کے بل پر آزادی کا خواب دیکھا، مگر 2009 میں وہ خود مٹی میں دفن ہو گئے۔
چیچنیا میں روس کے خلاف طویل جنگ چلی، مگر آج وہاں امن ہے، جبکہ وہ جنگ لڑنے والے ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ فلسطین کی جدوجہد اس بات کی گواہ ہے کہ اگر کوئی تحریک پائیدار نظریاتی اور سفارتی بنیادوں پر استوار نہ ہو، تو وہ صرف بربادی لے کر آتی ہے۔ نازی جرمنی میں ہٹلر نے یہی نعرہ لگایا کہ جرمن قوم دنیا کی سب سے برتر قوم ہے، مگر نتیجہ بربادی کی صورت میں نکلا۔ یوگوسلاویہ میں قوم پرستی نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا، نسل کشی کی خوفناک داستانیں رقم ہوئیں، اور آخرکار قوم پرستی کا یہ نظریہ خود اپنی موت آپ مر گیا۔
متشدد قوم پرستی کا ایک اور افسوسناک باب روانڈا میں 1994 میں لکھا گیا، جہاں ہوتو اور توتسی قبائل کے درمیان نفرت کی آگ بھڑکائی گئی۔ ایک لاکھ سے زائد لوگ صرف چند مہینوں میں بے دردی سے قتل کر دیے گئے۔ اسی طرح، بوسنیا میں 1990 کی دہائی میں قوم پرستی کے نام پر لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، جہاں صرب قوم پرستوں نے “نسلی پاکیزگی” کے نام پر قتل و غارت کی۔ ہندوستان میں خالصتان تحریک کے دوران بھی یہی ہوا، جہاں سکھ علیحدگی پسندوں کی تحریک نے ہزاروں جانیں لیں۔
، مگر آخرکار ریاست کے سامنے جھکنا پڑا۔کارل مارکس، جو خود ایک انقلابی نظریہ رکھتے تھے، کہتے تھے کہ “کوئی بھی تحریک اگر نظریاتی، سماجی اور سیاسی بنیادوں پر مضبوط نہ ہو، تو وہ صرف فساد پیدا کرتی ہے۔” بلوچستان کی مسلح جدوجہد اسی انتشار کی بہترین مثال ہے۔ یہاں نہ کوئی واضح سیاسی حکمت عملی ہے، نہ کوئی معاشی نظریہ، نہ ہی کوئی حقیقی عوامی حمایت۔ جو لوگ ان باغیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، وہ درحقیقت بلوچستان کی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو گروی رکھ رہے ہیں۔
آج بلوچستان میں دہشت گردی کا نتیجہ صرف بے گناہ جانوں کے نقصان کی صورت میں نکل رہا ہے۔ رواں سال اب تک بلوچستان میں 50 سے زائد دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں، جن میں 200 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ مارچ 2025 میں جعفر ایکسپریس پر حملے میں 31 مسافر لقمۂ اجل بنے، جبکہ پنجابی مزدوروں کو شناختی کارڈ دیکھ کر گولی مارنے جیسے واقعات نے بلوچستان کو مزید تنہائی اور بدنامی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ وہ مزدور جو اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کمانے آئے تھے، وہ نفرت کی آگ میں جلا دیے گئے۔ ان کے معصوم بچے شاید آج بھی دروازے پر نظریں جمائے باپ کی راہ تک رہے ہوں گے، مگر انہیں معلوم نہیں کہ باپ کبھی واپس نہیں آئے گا۔ریاست کی جانب سے بلوچستان کے لیے کئی بڑے منصوبے جاری ہیں۔
، جیسے کہ گوادر پورٹ، سی پیک، مکران کوسٹل ہائی وے، اور مختلف تعلیمی و صنعتی اقدامات۔ لیکن جب ترقی کے راستے پر گولیوں کی بارش ہو، جب اسکولوں پر حملے ہوں، جب مزدوروں کو شناختی کارڈ دیکھ کر مار دیا جائے، تو خوشحالی کیسے آئے گی؟ کیا بلوچستان کے زخموں پر مرہم لگانے کا یہی طریقہ ہے؟دنیا کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جو قومیں مسلح جدوجہد کو ترک کر کے سیاسی اور معاشی ترقی پر توجہ دیتی ہیں، وہی کامیاب ہوتی ہیں۔ ترکی میں کرد باغیوں نے دہائیوں تک مسلح تحریک چلائی۔
، مگر ترکی کی ترقیاتی پالیسیوں اور مضبوط ریاستی بیانیے نے ان کی جدوجہد کو کمزور کر دیا۔ آج کرد عوام ترکی میں نہ صرف ترقی کر رہے ہیں بلکہ قومی دھارے کا حصہ بھی بن چکے ہیں۔ اسی طرح، چیچنیا میں 1990 کی دہائی میں مسلح بغاوت ہوئی، مگر آج وہاں استحکام اور ترقی ہے، جبکہ مسلح گروہ ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔بلوچستان کی تاریخ میں بھی یہی سبق چھپا ہے۔ کئی دہائیوں کی مسلح تحریک کے باوجود باغی اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے، جبکہ عام بلوچ عوام کو صرف مصائب، غربت اور عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
آج بھی اگر یہی راستہ اپنایا گیا تو نقصان صرف بلوچستان کا ہوگا۔ ہتھیار وہ زہر ہیں جو جس ہاتھ میں ہوتے ہیں، سب سے پہلے اسی کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ اگر واقعی بلوچ عوام کے حقوق کی بات کرنی ہے، تو اس کا طریقہ بندوق نہیں، بلکہ دانشمندی، سیاسی شعور اور ترقیاتی عمل میں شرکت ہے۔قوم پرستی اور مسلح جدوجہد، دونوں ہی وقتی جذباتی نعروں کے سوا کچھ نہیں۔ ترقی، خوشحالی اور عوامی فلاح کا راستہ صرف ریاست کے اندر رہ کر سیاسی، سماجی اور معاشی اقدامات کے ذریعے نکالا جا سکتا ہے۔ دنیا کی ہر وہ قوم جو آگے بڑھی، اس نے تشدد نہیں بلکہ حکمتِ عملی اور ترقی کا راستہ اپنایا۔ بلوچستان بھی اگر ایک روشن مستقبل دیکھنا چاہتا ہے تو اسے گولیوں کے بجائے تعمیری اقدامات پر یقین رکھنا ہوگا۔
بندوق سے نہ روٹی ملتی ہے، نہ روزگار، نہ عزت، نہ ترقی۔ بندوق صرف ماؤں کی گودیں اجاڑتی ہے، بچوں کے مستقبل کو یتیمی کے اندھیروں میں دھکیلتی ہے، اور زمین پر ایسا زخم چھوڑ جاتی ہے جو صدیوں تک رستا رہتا ہے۔ بلوچستان کو اگر واقعی بچانا ہے تو راستہ صرف ایک ہے—تشدد کا خاتمہ اور ترقی کی راہ پر قدم۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں