ملتان میں صحافیوں کو درپیش خطرات اور جبری گمشدگیاں
ملتان(وقائع نگار)ملک بھر کے صحافیوں کی طرح ملتان کے صحافیوں کو بھی اپنی پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیتے ہوئے پولیس اور دیگر اداروں کے جانب سے گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کے واقعات کا سامنا کرنا پڑا گزشتہ سال کے دوران خبر کی اشاعت پر روز نامہ بیٹھک ملتان کے چیف ایڈیٹر عبد الستار بلوچ کو پولیس اورملتان کے مشہور زمانہ بسکٹ فیکٹری کے مالک کی جانب سے جھوٹ مقدمہ میں پھنسایا گیا ۔
جو کہ بعد میں جھوٹا ثابت ہونے پر خارج کر دیا گیا سنئیر صحافی شاہد لودھی کو صحافیوں کے واٹس ایپ گروپ میں آزادی اظہار کی قمیت گرفتاری کی صورت میں چکانا پڑی رات کے اندھیرے میں انھیں گھر سے اٹھایا گیا جس کے بعد انھیں رات گئے تک مختلف تھانوں کی حدود میں رکھا گیا اور شدید ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
بعد ازاں انھیں بھی آزاد کر دیا گیا نوجوان صحافی گوہر شیخ بھی کو آزادی اظہار کی قمیت ریاستی جبر کی صورت میں ادا کرنا پڑی گوہر شیخ کو گھر سے اٹھایا گیا جس کے بعد انھیں غیر قانونی طور پر کسی مقدمے کے بغیر ہی قید تنہائی میں رکھا گیا جس کے بعد انھیں دھمکیاں دیں گئیں اور خاموش نہ رہنے پر سنگین نتائج کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا گیا۔
گوہر شیخ کو ذہنی طور پر اس نہج پر پہنچا دیا گیا کہ انھوں شعبہ صحافت سے ترک کرنے پر سوچنا شروع کر دیادو ہفتے قبل خبر کی اشاعت پر صحافی ملک ارشد کو آفس سے باہر نکلتے ہوئے اٹھایا گیا انھیں ایک ہفتے تک قید تنہائی میں رکھا گیا اور خبر شائع کرنے پر انتہائی ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ملک ارشد کی جبری گمشدگی کا کسی ادارے کی جانب سے اقرار نہیں کیا گیا ایک ہفتے کے بعد انھیں کچہ کھوہ چلتی گاڑی سے دھکا دے کر پھینک دیا گیا صحافیوں کی جبری گمشدگی اور انکی بازیابی کے لی ملتان یونین آف جرنلسٹس نے کلیدی کردار ادا کیا جبری گمشدگی کے ہر کیس کے خلاف ملتان یونین آف جرنلسٹس سڑکوں پر نکل آئی ۔
احتجاجی مظاہروں اور قانونی کارروائی کے ذریعے صحافیوں کی بازیابی کے لیے اپنا کردار ادا کیا اور آزادی اظہار رائے کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوشاں رہی ملتان جنوبی پنجاب کا مرکز ہے لیکن یہاں کے صحافیوں کو پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دینے کے لیے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں