(سی ڈی اے سپیشل پراجیکٹ ڈائریکٹرکا کارنامہ) انتہائی اہم منصوبے کے ٹھیکیدار کو بغیرکام کیے 6ارب کی ادائیگیاں

سی ڈی اے میں اربوں کی بے ضابطگیاں، 6.5 ارب کی مشکوک ادائیگیاں

اسلام آباد (سپیشل رپورٹر) کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سپیشل پراجیکٹ ڈائریکٹوریٹ کے ڈائریکٹر سجاد شاکر اللہ کا کارنامہ 14 ارب روپے سے زائد مالیت کے منصوبے کے ٹھیکیدار کو کام کئے بغیر ساڑھے چھ ارب روپے کی ادائیگیاں کر دیں، سی چیئرمین محمد علی رندھاوا اور ممبر فنانس طاہر نعیم اختر سمیت تمام حکام پر پراسرار خاموشی طاری۔
سی ڈی اے میں موجود ذرائع کے مطابق سی ڈی اے حکام بڑی بے دردی سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہیں جس کی ایک مثال ایک اہم منصوبے میں ٹھیکیدار کو بغیر کسی کام کے ثبوت کے اربوں روپے کی ادائیگیاں کر دی گئیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس بے ضابطگی کا تعلق ایک ایسے منصوبے سے متعلق ہے جس کا مقصد کم آمدنی والے طبقے کو چھت فراہم کرنا تھا، لیکن یہ منصوبہ بھی سی ڈی اے حکام کی بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کی نذر ہو گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سی ڈی اے کے شعبہ، سپیشل پراجیکٹ ڈائریکٹوریٹ کے ڈائریکٹر سجاد شاکر اللہ نے فراش ٹاؤن میں کم لاگت ہاؤسنگ اسکیم کی ترقی’ کے منصوبے کا ٹھیکہ میسرز ایف ڈبلیو او کو براہ راست ٹھیکے کے ذریعے 13 جولائی 2021 کو دیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس ٹھیکے کی مجموعی لاگت 14.776 ارب روپے تھی جبکہ اور اس کی تکمیل کی مدت 24 ماہ مقرر کی گئی تھی۔انہوں نے بتایا کہ منصوبے کے تحت ابتدائی طور پر 3,960 اپارٹمنٹس کی تعمیر شامل تھی اور ادائیگیاں بھی اسی حساب سے کی جانی تھیں۔
تاہم، بعدازاں اس منصوبے کے دائرہ کار کو کم کر کے 2,400 اپارٹمنٹس تک محدود کر دیا گیا،انہوں نے بتایا کہ حیران کن طور پر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے فرم کو ادائیگیوں کا سلسلہ 3960 اپارٹمنٹس کی تعمیر کے حساب سے برقرار رکھا گیا اور اپارٹمنٹس کی تعداد میں کمی کے باوجود ادائیگیوں کے حوالے سے کسی قسم کی نظر ثانی نہ کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ بل پر بل پاس کر کے فرم کو ادائیگیاں جاری رہیں یہاں تک کہ 12 ویں بل تک 6.571 ارب روپے کے قریب ادائیگیاں یہ کہہ کر دی گئیں کہ اتنی مالیت کا کام ہو گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان ادائیگیوں کے حوالے متعدد سنگین بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں جس میں سے سب سے اہم بے ضابطگی یہ ہے کہ ادائیگی کے شیڈول کے مطابق کام کی سرگرمیوں کی تصدیق کیے بغیر ہی ٹھیکیدار کو بھاری رقوم ادا کر دی گئیں۔ذرائع کے مطابق سی ڈی اے پروسیجر مینوئل پارٹ ٹو کے قاعدہ نمبر ایک کے تحت ہر سرکاری افسر اس بات کا پابند ہے کہ وہ عوامی فنڈز سے اخراجات کے سلسلے میں ویسی ہی چوکسی کا مظاہرہ کرے گا جیسا کہ ایک عام فہم شخص اپنے ذاتی پیسوں کے خرچ کے معاملے میں کرتا ہے۔
لیکن بدقسمتی سے اس معاملے میں اس ہدایت کی صریح خلاف ورزی کی گئی۔انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ اس سے بھی بڑی سنگین بے ضابطگی یہ سامنے آئی ہے کہ پراجیکٹ کے لئے سامان کی خریداری اور اس کے استعمال کی تفصیلات بھی ریکارڈ پر موجود نہیں ہیں اور اس سب کے باوجود سامان اور ڈیزائن کی مد میں فرم کو 92 فیصد ادائیگی کر دی گئی ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ٹھیکیدار کو سائٹ پر کام کیے بغیر ہی پیشگی ادائیگی کر دی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سامان استعمال ہی نہیں ہوا یا اس کا کوئی ریکارڈ نہیں تو اتنی بڑی رقم کس بنیاد پر ادا کی گئی مگر چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا اور ممبر فنانس طاہر نعیم اختر سمیت تمام متعلقہ حکام اس بے ضابطگی پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ معاملے کی سنگینی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب یہ بات سامنے آئی کہ استعمال شدہ سامان کی ٹیسٹ رپورٹس بھی دستیاب نہیں ہیں جبکہ کسی بھی تعمیراتی منصوبے میں استعمال ہونے والے میٹریل کا معیار جانچنے کے لیے ٹیسٹ رپورٹس انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہیںان کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ رپورٹس کی عدم موجودگی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہےانہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ ایک اور بات بھی سامنے آئی ہے جس کے مطابق تعمیراتی سرگرمیوں کی تفصیلی پیمائش کو میژرمنٹ بک میں بھی درج نہیں کیا گیا جو کہ ایک بنیادی ضرورت ہے۔
جس کے بغیر کام کی مقدار اور معیار کا تعین ناممکن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دفتر کے ریکارڈ میں ماہانہ پیش رفت کی رپورٹس بھی دستیاب نہیں ہیں، جس سے منصوبے کی نگرانی کے نظام پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ان تمام بے ضابطگیوں اور معاہدے کی شقوں کو نظرانداز کرنے کے پیش نظر، ٹھیکیدار کو کی گئی 6.571 ارب روپے کے قریب کی ادائیگی غیر مصدقہ اور مشکوک دکھائی دیتی ہے جس سے سی ڈی اے میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔
عوامی اور شہری حلقوں نے وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ محسن نقوی اور سیکریٹری داخلہ خرم آغا سے مطالبہ کیا کہ اس سنگین بے ضابطگی کے ذمہ داروں کا تعین کر کے ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے کیونکہ قومی خزانے کو پہنچنے والے اس بڑے نقصان پر محض خاموشی اختیار کر لینا یا معاملے کو دبانے کی کوشش کرنا کسی صورت قابل قبول عمل نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قواعد کے برعکس اتنے بڑی مالیت کی ادائیگیاں قومی خزانے کے ساتھ کھلواڑ ہے یہ عوام کا پیسہ ہے اور اس کی حفاظت اور صحیح استعمال کو یقینی بنانا ہر سرکاری ادارے اور افسر کی اولین ذمہ داری ہے۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں