پاکستان کی کپاس کی صنعت کو بچانے کے لیے حکومت کا 18 فیصد سیلز ٹیکس ختم کرنے پر غور
ملتان (رپورٹ: نسیم عثمان )مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے کے دوران روئی کے بھاؤ میں استحکام رہا۔ کاروبار محدود رہا کپاس کی نئی فصل کی جزوی آمد شروع ہو چکی ہے فی الحال صوبۂ سندھ میں 3 جینگ فیکٹریاں جزوی طور پر چل رہی ہیں جبکہ صوبۂ پنجاب میں بھی 4 جینگ فیکٹریوں نے جزوی طور پر جینگ شروع کردی ہے صوبہ سندھ کے زیریں علاقوں سے پھٹی کی جزوی أمد شروع ہو چکی ہے فی الحال تقریباً 2200 گانٹھوں کی پھٹی جینگ فیکٹریوں میں پہنچ چکی ہے۔
عید الاضحی کے بعد زیادہ کاروبار شروع ہونے کی امید ہے حکومت نے نئے سیزن 26-2025 کے لیے کپاس کا پیداواری ہدف ایک کروڑ 18 لاکھ گانٹھوں کا مقرر کیا ہے۔ فی الحال چالو سیزن کا کاروبار کم ہو رہا ہے روئی کا بھاؤ 15000 تا 17500 روپے فی من پر ہو رہا ہے زیادہ کاروبار ادھار میں ہو رہا ہے کوالٹی اور پیمنٹ کنڈیشن پر کاروبار ہو رہا ہے جنرز کے پاس روئی کا اسٹاک کم ہوتا جا رہا ہے وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان نے کہا ہے کہ حکومت مقامی کپاس پر 18 فیصد جنرل ٹیکس ختم کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔
تاکہ کپاس کی پیداوار کو فروغ دیا جائے یہ بات انہوں نے پیر کے روز ایک پریس کانفرنس میں بتائی P H M A نے حکومت پر زور دیا ہے PEAK HOUR میں بجلی کے TARIFFS میں کمی کرے تاکہ برامد کو فروغ ملے۔صوبۂ سندھ و پنجاب میں کوالٹی اور پیمنٹ کنڈیشن کے مطابق روئی کا کاروبار فی من 15000 تا 17500 روپے تک ہوئے نئی فصل کے سودے فی من 17000 تا 17500 روپے میں ہوئے پھٹی فی 40 کلو 8000 تا 8800 روپے تک فروخت ہو رہی ہے۔
کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپارٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ فی من 16700 روپے کے بھاؤ پر مستحکم رکھا۔کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن کے بھاؤ میں اتار چڑھا ہو رہا ہے نیویار کاٹن کے بھاؤ میں ملا جلا رجحان رہا 65.50 تا 69 سینٹ کے درمیان وعدے کے سودے ہو رہے ہیں۔ USDA کی ہفتہ وار برآمدی اور فروخت رپورٹ کے مطابق سال2024-25 کیلئے 1 لاکھ 18 ہزار 700 گانٹھوں کی ہوئی۔
ویتنام 65 ہزار 600 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔بنگلہ دیش 17 ہزار 300 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔ترکی 12 ہزار 400 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔سال 2025-26 کیلئے 13 ہزار 800 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔پاکستان 7 ہزار 600 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔تھائیلینڈ 3 ہزار 500 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔پیرو 2 ہزار 600 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔برامدات 2 لاکھ 75 ہزار 400 گانٹھوں کی ہوئی۔ویتنام 1 لاکھ 17 ہزار گانٹھیں درامد کرکے سرفہرست رہا۔پاکستان 34 ہزار 300 گانٹھیں درآمد کرکے دوسرے نمبر پر رہا۔ترکی 33 ہزار 900 گانٹھیں درآمد کرکے تیسرے نمبر پر رہا۔
دریں اثناء سیکرٹری زراعت پنجاب افتخار علی سہو نے بزنس کلب سے کہا ہے کہ پنجاب میں اب تک 33 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر کپاس کی کاشت مکمل ہو چکی ہے اور صوبہ 94 فیصد مقررہ ہدف حاصل کر چکا ہے۔ یہ بات انہوں نے کپاس کی موجودہ صورتحال پر منعقدہ ایک اعلیٰ سطحی جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔سیکرٹری زراعت پنجاب افتخار علی سہو کا کہنا تھا کہ مرحلہ وار کاشت کے ذریعے کپاس کی پیداوار میں بہتری لانے کی ایک منفرد اور کامیاب روایت قائم کی گئی ہے۔
علاوہ ازیں پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) اور آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کی فوری اپیل کے بعد حکومت نے اس شعبے کی توجہ مبذول کرائی ہے، جو دہائیوں کے سب سے سنگین مالی بحران کا شکار ہے۔ دونوں تنظیموں نے ایک ہائی پروفائل لابنگ مہم شروع کی ہے، وزیر اعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر اور ملک گیر میڈیا بلٹز کا آغاز کیا ہے، جس میں ایکسپورٹ فیسیلیٹیشن سکیم (EFS) کو فوری طور پر ختم کرنے یا مقامی طور پر پیدا ہونے والی کپاس اور اس کی ضمنی مصنوعات پر سیلز ٹیکس کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ (MNFSR) سے پالیسی سفارشات طلب کیں۔
جواب میں، وزارت نے باضابطہ طور پر صنعت کی تجاویز کی حمایت کی ہے۔ پی سی جی اے کے صدر کو لکھے گئے خط میں خادم حسین نے کہا کہ حکومت نے سفارش کی ہے کہ ملکی کپاس، کاٹن سیڈ، آئل کیک اور کاٹن سیڈ آئل پر 18 فیصد سیلز ٹیکس فوری طور پر ختم کیا جائے یا سوتی، دھاگے اور گرے کپڑوں کی درآمد پر اسی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ وزارت کی سفارشات کسانوں کی آمدنی کے تحفظ، ملکی پیداوار کو بحال کرنے اور مہنگی کپاس کی درآمد پر پاکستان کے بڑھتے ہوئے انحصار کو روکنے کے لیے بھیجی گئی ہیں۔ اعلان میں بتایا گیا کہ پنجاب نے کسانوں کی آمدنی بڑھانے اور مختلف فصلوں کی پیداواری لاگت کو کم کرنے کے لیے ٹارگٹڈ سبسڈیز کا نفاذ کیا ہے۔
انڈسٹری کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ٹیکسٹائل ملوں نے 2024-25 کے پہلے نو مہینوں کے دوران 300 ملین کلو گرام سوتی دھاگے اور 20 لاکھ گانٹھیں درآمد کیں، جس کے نتیجے میں اربوں ڈالر کا زرمبادلہ ضائع ہوا۔ تاہم ملکی پیداوار صرف 5.5 ملین گانٹھوں کی تاریخی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ دریں اثنا، غیر فروخت شدہ روئی اور دھاگے کا ایک بہت بڑا ذخیرہ، 200,000 گانٹھوں سے زیادہ، فیکٹریوں میں بے کار پڑی ہوئی ہے، جس کی طلب جمود کا شکار ہے۔
کاٹن جنرز فورم کے چیئرمین احسان الحق کا کہنا ہے کہ نتیجہ تباہ کن رہا ہے کیونکہ 800 سے زائد جننگ یونٹس اور 120 اسپننگ ملوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے، جب کہ مزید سینکڑوں ٹیکسٹائل یونٹس بمشکل کام کر رہے ہیں۔ “اگر موجودہ پالیسی جاری رہی تو اس شعبے کو مکمل طور پر تباہی کا خطرہ ہے،-
” انہوں نے خبردار کیا، انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان جلد ہی نہ صرف کپاس بلکہ خوردنی تیل بھی درآمد کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے، جس سے ملک کی مالی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ MNFSR کی سفارشات میں فوری طور پر زور دیا گیا ہے، گھریلو پروڈیوسرز کے لیے فوری طور پر ٹیکس ریلیف یا درآمدات پر ایک ہی ٹیکس کے نفاذ کی سفارش کی گئی ہے تاکہ ایک برابری کی سطح کو بحال کیا جا سکے۔ اب تمام نظریں وفاقی حکومت پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ پاکستان کی کاٹن اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں