بھارہ کہو بائی پاس منصوبے کی بے ضابطگیاں: اربوں کے منصوبے میں شفافیت کا فقدان
اسلام آباد (سپیشل رپورٹر) کیپیٹل ڈویلپمنٹ تھارٹی (سی ڈی اے) کی جانب سے اربوں روپے کا تعمیراتی منصوبہ بغیر آکشن (بولی) کے نیشنل لاجسٹکس کارپوریشن (این ایل سی) کو منصوبے کی لاگت کا تخمینہ لگانے کا طریقہ کار پس پشت ڈالتے ہوئے دینے کا انکشاف، بھارہ کہو بائی پاس منصوبے میں مبینہ بے ضابطگیوں اور سنگین کوتاہیوں نے منصوبے کے طریقہ کار، شفافیت اور عوامی تحفظ کے معیارات پر سنگین سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔
سی ڈی اے میں موجود ذرائع کے مطابق اس منصوبے کا مقصد دارالحکومت کے داخلی راستوں پر ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنا تھا جس کا آغاز ستمبر 2022 میں کیا گیا تھاانہوں نے بتایا کہ سی ڈی اے کے روڈ ڈائریکٹوریٹ (نارتھ) نے قواعد و ضوابط کو روندتے ہوئے یہ منصوبہ براہ راست این ایل سی کو ڈیزائن اور تعمیر کی بنیاد پر سونپا۔ اس معاہدے کی کل مالیت 6 ارب 51 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد تھی اور اسے فوری نوعیت کا اور عوامی مفاد میں ایک اہم قدم قرار دیا گیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ منصوبے کو ایک خصوصی شق کے تحت بغیر کسی کھلی نیلامی کے دیا گیا جس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ یہ منصوبہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور اسے جلد از جلد مکمل کرنا عوامی مفاد میں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس خصوصی طریقہ کار کے تحت سرکاری اداروں کو بغیر مسابقتی بولی کے ٹھیکے دینے کی اجازت ہوتی ہے بشرطیکہ وہ کام خود کریں اور کسی نجی شعبے کے شراکت دار کو شامل نہ کریں۔ انہوں نے بتایا کہ منصوبے کی لاگت کے تعین کے طریقہ کار پر متعلقہ سرکاری حلقوں کی جانب سے مخلتف نوعیت کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کے مطابق متعلقہ قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منصوبے کی لاگت کا تخمینہ لگاتے ہوئے قیمتوں کے مناسب ہونے کو یقینی بنانے کے لیے کوئی واضح اور ٹھوس طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا تھا جو کہ قواعد کے تحت لازمی تھا۔انہوں نے بتایا کہ سی ڈی اے حکام نے ٹھیکے کی مالیت کا تعین کرتے ہوئے نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے مروجہ نرخوں پر این ایل سی کو تقریباً 15.81 فیصد اضافی پریمیم کی ادائیگی کی گئی، جبکہ این ایچ اے کے نرخوں میں پہلے ہی ٹھیکیدار کے تمام اخراجات اور منافع شامل ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس اضافی پریمیم کی ادائیگی کی وجہ سے قومی خزانے پر 82 کروڑ 81 لاکھ روپے سے زائد کا اضافی بوجھ پڑا، جس کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے یوں سی ڈی اے حکام کی جانب سے قیمتوں کے تعین میں مناسب احتیاط نہ برتنا اس منصوبے پر اٹھنے والے بنیادی سوالات میں سے ایک ہے۔انہوں نے بتایا کہ منصوبے کی جلد تکمیل کی خاطر این ایل سی کو بغیر کسی مسابقتی عمل کے ٹھیکہ دیا گیا تھا اور اس کی تکمیل کے لیے صرف چار ماہ کی انتہائی کم مدت مقرر کی گئی تھی اور اسی مختصر مدت کو ہی براہ راست ٹھیکہ دینے کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا گیا تھا لیکن منصوبہ مقررہ مدت میں مکمل نہ ہو سکا تھا جس پراین ایل سی کو 214 دن کی اضافی توسیع بھی دی گئی تھی لیکن اس کے باوجود بھی کام ادھورا ہی رہا۔
جس سے منصوبے کو جلد از جلد مکمل کرنے کے لئے مسابقتی عمل کو ختم کرنے کا مقصد اور جواز ہی ختم ہو جاتا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ سی ڈی اے حکام کا یہ طرز عمل پراجیکٹ کی منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد کی صلاحیتوں پر ایک سنگین سوالیہ نشان ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ منصوبے کو عجلت میں شروع تو کر دیا گیا لیکن اس کی بروقت تکمیل کے لیے درکار وسائل اور منصوبہ بندی موجود نہیں تھی۔انہوں نے مزید بتایا کہ معاہدے کی ایک اور اہم شق کے مطابق ٹھیکیدار ٹریفک کی روانی کو یقینی بنانے اور کسی بھی حادثے سے بچنے کے لیے اسفالٹ سے بنی مناسب اور محفوظ ڈائیورژن سڑکیں بنانے کا پابند ہو گا جبکہ ان حفاظتی انتظامات کی لاگت ٹھیکیدار کی بولی میں شامل تھی اور اس کے لیے کوئی علیحدہ ادائیگی نہیں کی جانی تھی۔
تاہم تعمیراتی کام کے دوران اس اہم شرط کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ٹھیکیدار کی جانب سے مناسب پختہ ڈائیورژن فراہم نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوا بلکہ ایک انتہائی افسوسناک اور جان لیوا حادثہ بھی پیش آیا۔انہوں نے بتایا کہ اس حادثے میں نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع ہوا بلکہ منصوبے کے ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا، لیکن اس کے باوجود نہ تو اس غفلت پر کوئی کارروائی کی گئی اور نہ ہی ڈائیورژن نہ بنانے کی مد میں ٹھیکیدار سے کوئی رقم وصول کی گئی۔
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ منصوبے کی تعمیر کے دوران مجموعی طور پر دو مہلک حادثات رونما ہوئے جن میںمنصوبے پر کام کرنے والے ورکرز کی اموات بھی ہوئیں لیکن یہ انتہائی تشویشناک امر ہے کہ ان واقعات پر کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور نہ ہی کوئی ایف آئی آر درج کی گئی۔انہوں نے بتایا کہ ایک دوسرے سنگین واقعے میں پل پر رکھے گئے پانچ بھاری بھرکم گرڈر لانچنگ کے فوراً بعد نیچے آ گرے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ تعمیراتی کام کے معیار اور حفاظت کے ناقص انتظامات کی واضح مثال ہے ۔
جس نے پورے منصوبے کے ڈھانچے کی مضبوطی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ منصوبے پر کام کرنے والے مزدوروں اور عام شہریوں کی حفاظت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا جبکہ حفاظتی پروٹوکول کی اس کھلی خلاف ورزی نے منصوبے کی نگرانی کرنے والے ادارے سی ڈی اے کی کارکردگی کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کی ایک اور سنگین بے ضابطگی یہ سامنے آئی ہے کہ اس اربوں روپے کے منصوبے کے ڈیزائن کی کسی تیسرے غیر جانبدار فریق سے جانچ پڑتال (Vetting) نہیں کروائی گئی باجود اس کے کہ بڑے اور اہم منصوبوں میں یہ ایک لازمی عمل ہوتا ہے تاکہ ڈیزائن میں کسی بھی ممکنہ خامی کو تعمیر سے پہلے ہی دور کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ تیسرے فریق کی جانچ پڑتال کے بغیر منصوبے پر کام شروع کرنا ایک غیر معمولی قدم ہے جس سے منصوبے کی سٹرکچرل مضبوطی اور پائیداری خطرے میں پڑ سکتی ہے جبکہ گرڈرز کا گرنا ممکنہ طور پر ڈیزائن کی خامیوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جن کا بروقت ادراک نہیں کیا گیا تھا۔انہوں نے مزید بتایا کہ منصوبے پر عملدرآمد کے دوران تعمیراتی طریقہ کار کے لیے وضع کردہ ایس او پیز پر بھی عمل نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے حفاظتی اقدامات سے لے کر تعمیراتی معیار تک ہر سطح پر کوتاہیوں کے شواہد ملے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ واقعات اور حادثات منصوبے کی نگرانی پر مامور کنسلٹنٹ کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں کیونکہ ایک سپروائزری کنسلٹنٹ کی بنیادی ذمہ داری اس بات کو یقینی بنانا ہوتی ہے کہ کام معاہدے اور حفاظتی معیارات کے عین مطابق ہو تاہم اس معاملے میں سپروائزری کنسلٹنٹ اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں بری طرح ناکام نظر آتا ہےان کا کہنا تھا کہ سپروائزری کنسلٹنٹ کی نگرانی میں ہونے والی سنگین کوتاہیوں کے باوجود اس کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی یوں کنسلٹنٹ کو اس ناقص کارکردگی پر کوئی جرمانہ عائد نہ کرنا بھی ایک سوالیہ نشان چھوڑ جاتا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ منصوبے میں شامل بااثر فریقین کو ان کی غفلت اور کوتاہیوں کے باوجود جوابدہ نہیں ٹھہرایا جا رہا ہے۔
عوامی حلقوں نے وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ محسن نقوی اور چئیرمین سی ڈٰی اے محمد علی رندھاوا مطالبہ کیا ہے کہ اس اہم منصوبے میں ہونے والی تمام بے ضابطگیوں کی اعلیٰ سطح پر مکمل اور شفاف تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داروں کا تعین کر کے چاہے وہ سرکاری اہلکار ہوں، ٹھیکیدار ہوں یا نگران کنسلٹنٹ انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ مستقبل میں ایسے عوامی منصوبوں میں شفافیت، میرٹ اور سخت حفاظتی معیارات کو یقینی بنایا جا سکے اور قومی خزانے کو نقصان نہ پہنچے اور انسانی جانوں کا تحفظ یقینی ہو سکے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں