علیحدہ سرائیکی صوبہ اور پنجاب کے استحصالی نظام کا خاتمہ
ملتان (خبر نگار) سرائیکی خطے کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی نمائندہ شخصیات نے پنجاب کی استحصالی پالیسیوں، صوبائی بجٹ 2025–26 میں سرائیکی وسیب کے ساتھ روا رکھے گئے امتیازی سلوک کی شدید مذمت کرتے ہوئے علیحدہ سرائیکی صوبے کے قیام کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
سرائیکی لوک سانجھ کے زیر اہتمام صوبائی بجٹ میں وسائل کی تقسیم میں سرائیکی خطے کو بری طرح نظر انداز کرنے کے حوالے سے ملتان پریس کلب میں ہونے والے سیمینار میں سرائیکی خطے کے طلباء، صحافی، وکلاء، دانشور، فنکار اور کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور بجٹ میں سرائیکی خطے کے ساتھ رکھے جانے والے ناانصافی پر مبنی امتیازی سلوک پر سراپا احتجاج بن گئے، اس سلسلے میں جاری ہونے والے اعلامیے میں پنجاب کی استحصالی پالیسیوں، پنجاب کے بجٹ 2025–26 میں سرائیکی وسیب کے ساتھ روا رکھے گئے امتیازی سلوک کی شدید مذمت کی گئی اور علیحدہ سرائیکی صوبے کے قیام کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا گیا۔
اعلامیے میں سرائیکی خطے کی عشروں سے جاری معاشی استحصال، ثقافتی مٹاؤ اور سیاسی بے دخلی کو پنجاب کے اندرونی نوآبادیاتی نظام کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔ ‘سرائیکی صوبہ اور بجٹ’ کے عنوان سے ہونے والے سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے سرائیکی دانشور اور محقق کامران کھوسہ کا کہنا تھا کہ مریم نواز کی حکومت نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو کمزور کرکے اور شفاف بجٹ ٹریکنگ میکانزم کو ختم کرکے ماضی کے نیم خودمختار اقدامات کو منسوخ کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر سرائیکی صوبہ موجود ہوتا تو این ایف سی ایوارڈ میں اس کا حصہ 1494 ارب روپے بنتا۔ انہوں کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب کے ترقیاتی بجٹ میں مختص 35 فیصد ‘رنگ فینسڈ’ حصہ کم کیا گیا ہے جس کی وجہ سے پہلے سے پسماندہ سرائیکی وسیب مزید پسماندگی کا شکار ہوگا۔سرائیکی لوک سانجھ کے صدر اکرم میرانی نے دیگر محکوم اقوام کے ساتھ یکجہتی پر مبنی مشترکہ جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ موجودہ جابرانہ نظام پُرامن تحریکوں کو طاقت کے زور پر کچل رہا ہے جو کہ ایک باعث تشویش عمل ہے اکرم میرانی کا کہنا تھا کہ متوازن فیڈریشن اور حقیقی اختیارات کی منتقلی کے لیے سرائیکیوں سمیت تمام قوموں کو پنجاب کی بالادستی کے خلاف متحد ہونا ہوگا ۔
کیونکہ سرائیکی صوبے کا قیام پاکستان میں مرکزیت کے خاتمے اور ترقی کا نشان بنے گا۔معروف سرائیکی دانشور اور ماہر لسانیات ڈاکٹر احسن واگھا نے سرائیکی زبان کی گراثمر اور پاکستان کی مقامی زبانوں کے خزانے پر روشنی ڈالتے ہوئے مادری زبان میں تعلیم کے بنیادی انسانی حق کی بحالی پر زور دیاڈاکٹر واگھا کا کہنا تھا کہ مادری زبان میں تعلیم طلباء کے لیے سیکھنے کے مسائل اور اخراجات کو کم کرنے کا موثر ذریعہ ہے۔محقق , استاد اور دانشور پروفیسر مشتاق گادی نے ریاست بہاولپور سے دریائے ستلج کے تعلق کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ریاست بہاولپور کا دریائے ستلج سے تعلق انڈس واٹر ٹریٹی (IWT) کے بعد ختم ہو گیا جس کی وجہ سے ریاست پانی کے حوالے سے قطرے قطرے کو محتاج ہو گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ بہاولپور کے پانی سے متعلق مسائل کو تسلیم کیا جانا چاہیے کیونکہ ان کے حل کے بغیر علاقے کی بقا ممکن نہیں۔انہوں نے انکشاف کیا کہ انڈس واٹر ٹریٹی اور اس کے بعد شروع ہونے والی آبپاشی کی اسکیموں کا سب سے بڑا فائدہ وسطی پنجاب کو ہوا جبکہ سرائیکی علاقے خاص طور ریاست بہاولپور کے علاقے بری طرح متاثر ہوئےدیگر مقررین بشمول فضل لُنڈ، مظہر نواز خان اور صفدر کلاسرہ نے بجٹ میں سرائیکیوں کے ساتھ ناانصافی پر مبنی سلوک کو اجاگر کیا اور پنجاب حکومت کے اس ظالمانہ بجٹ کے خلاف پرزور احتجاج کیاسیمنار کے اختتام پر جاری کردہ اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستانی فیڈریشن کو مضبوط بنانے کے لیے مرکزی پنجاب کے کردار کو محدود کیا جائے۔
سرائیکی علاقے کے ساتھ تاریخی اور موجودہ معاشی ناانصافیوں کے ازالے کے لیے علیحدہ سرائیکی صوبہ قائم کیا جائے؛ تمام زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے اور مادری زبان میں تعلیم کا حق تسلیم کیا جائے؛ بہاولپور ریجن کی پانی کی ضروریات کو ترجیح دی جائے اور مستقبل میں کسی بھی ممکنہ آبی مذاکرات میں دریائے ستلج کے حق کو دوبارہ حاصل کیا جائے اور سرائیکی قوم اور دیگر محکوم اقوام مثلاً سندھی اور پشتون کے درمیان مؤثر اتحاد کی بحالی کی جائے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں