چوہدری ذوالفقار انجم کی کمپنیوں کی سی ایس آر سرگرمیاں: مالیاتی گوشواروں تک رسائی کی درخواست
اسلام آباد (سپیشل رپورٹر) شہری کی جانب سے ٹیکس، گیس، بجلی چوری اور دھوکہ دہی کے الزامات کا سامنا کرنے والے ملتان کے معروف صنعت کار چوہدری ذوالفقار انجم کی ملکیتی پانچ کمپنیوں کے مالیاتی گوشواروں کے حصول کے لئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے رابطہ کرنے کا انکشاف چیئرمین بورڈ آف ریونیو راشد محمود لنگڑیال کو دی جانے والی درخواست میں شہری نے چوہدری ذوالفقار انجم سے منسلک پانچ کمپنیوں کے گزشتہ پانچ سال کے آڈٹ شدہ مالیاتی گوشواروں (فنانشل سٹیٹمنٹس) تک رسائی کی درخواست کی ہے۔
درخواست میں جن کمپنیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں ایس ایم گروپ آف انڈسٹریز لمیٹڈ، ایس ایم فوڈ میکرز لمیٹڈ، گگلی فوڈز لمیٹڈ، وولکا فوڈ انٹرنیشنل، اور ٹرسٹ سیکیورٹیز اینڈ بروکرج لمیٹڈ شامل ہیں،۔ذرائع کے مطابق کارپوریٹ سوشل ریسپانسیبلٹی (سی ایس آر) سرگرمیوں کو بنیاد بنا کر چوہدری ذوالفقار انجم اور اس کے اہل خانہ کی ملکیتی یہ کمپنیاں ٹیکس میں کسی قسم کی چھوٹ حاصل کر رہی ہیں، اس حوالے سے متضاد آراء ہیں تاہم سی ایس آر سرگرمیوں میں کمیونٹی کی فلاح و بہبود، ماحولیاتی تحفظ، تعلیم اور ہنر مندی کے فروغ، کمیونٹی کی صحت اور بہبود، اور ملازمین کی فلاح و بہبود شامل ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سی ایس آر کا تصور دراصل یہ ہے کہ کمپنیاں صرف منافع کمانے پر ہی توجہ نہ دیں بلکہ معاشرتی اور ماحولیاتی بھلائی میں بھی اپنا کردار ادا کریں اور اپنے کاروباری آپریشنز کے دوران اور اپنی پالیسیوں میں اخلاقی اقدار، انسانی حقوق، کمیونٹی کی فلاح و بہبود اور ماحولیاتی تحفظ کو مدنظر رکھیں۔انہوں نے بتایا کہ سی ایس آر میں مختلف قسم کی سرگرمیاں شامل ہو سکتی ہیں۔ جیسے کہ کمیونٹی کی ترقی کے منصوبوں میں حصہ لینا، جہاں کمپنیاں مقامی آبادی کے لیے سکول، ہسپتال، یا صاف پانی کے منصوبے شروع کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح ماحولیاتی تحفظ بھی سی ایس آر کا ایک اہم جزو ہے۔ کمپنیاں کوشش کرتی ہیں کہ وہ اپنے پیداواری عمل میں آلودگی کو کم کریں، وسائل کا پائیدار استعمال کریں، اور ماحولیات کو بچانے کے لیے مختلف اقدامات کریں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ تعلیم اور ہنر مندی کا فروغ بھی سی ایس آر کے تحت آتا ہے جس کے تحت کمپنیاں تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کرتی ہیں، سکالرشپس فراہم کرتی ہیں اور نوجوانوں کو مختلف ہنر سکھانے کے لیے تربیتی پروگرام شروع کرتی ہیں تاکہ انہیں روزگار کے بہتر مواقع مل سکیں۔
جبکہ کمیونٹی کی صحت اور بہبود بھی سی ایس آر کا ایک اہم پہلو ہے جس کے تحت کمپنیاں صحت کے مراکز قائم کرتی، میڈیکل کیمپ لگاتی اور بیماریوں سے بچاؤ کے لیے آگاہی مہم چلاتی ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ملازمین کی فلاح و بہبود بھی سی ایس آر کا حصہ ہے جس کے تحت کمپنیاں اپنے ملازمین کے لیے صحت کی سہولیات، بہتر کام کا ماحول، اور مختلف فلاحی منصوبے پیش کرتی ہیں تاکہ ان کی زندگی کا معیار بہتر ہو سکے۔
انہوں نے بتایا کہ کمپنیاں اپنی سی ایس آر سرگرمیوں کو اپنی سالانہ رپورٹوں میں نمایاں طور پر پیش کرتی ہیں اور اکثر ممالک میں حکومتیں اور ٹیکس حکام ان سرگرمیوں پر ٹیکس میں چھوٹ یا دیگر مراعات فراہم کرتے ہیں تاکہ کمپنیوں کو معاشرتی بھلائی کے کاموں میں حصہ لینے کی ترغیب دی جا سکے تاہم کچھ معاملات میں یہ شکایات بھی سامنے آتی ہیں کہ کمپنیاں محض ٹیکس میں چھوٹ حاصل کرنے کے لیے فرضی یا غیر مؤثر سی ایس آر سرگرمیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں۔
چوہدری ذوالفقار انجم کی کمپنیوں کے معاملے میں بھی ذرائع یہ بتا رہے ہیں کہ سی ایس آر سرگرمیوں کے حوالے سے یہ جاننا ضروری ہے کہ آیا یہ سرگرمیاں حقیقی ہیں یا صرف کاغذات کی حد تک موجود ہیں اور شہری کی جانب سے مالیاتی گوشواروں کی درخواست اسی سلسلے کی ایک کوشش لگتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چوہدری ذوالفقار انجم سی ایس آر سرگرمیوں کے نام پر مختلف محکموں کے اعلیٰ افسران کی خوشنودی حاصل کرتا ہے جس کا فایدہ عام آدمی کو برائے نام ہوتا ہے انہوں نے بتایا کہ ان گوشواروں کے ذریعے یہ پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ کمپنیوں کے مالی معاملات کیسے چل رہے ہیں اور کیا ان کی سی ایس آر سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے یا نہیں۔انہوں نے بتایا کہ چوہدری ذوالفقار انجم پر ماضی میں بھی مختلف نوعیت کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں جن میں بجلی اور گیس کی چوری بھی شامل ہے۔
جبکہ اس کی کاروباری سرگرمیوں کے حوالے سے دھوکہ دہی کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں، جن کی وجہ سے اس کے مالی معاملات پر سوالیہ نشان لگتے رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پچھلے مہینے ایف بی آر کی جانب سے گبز فوڈ پرائیویٹ لمیٹڈ کے دفاتر میں ٹیم کی تیس دن کے لئے تعیناتی اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومتی ادارے بھی چوہدری ذوالفقار انجم کے مالی معاملات کی چھان بین کر رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ تیس دن کے لیے مانیٹرنگ ٹیم کی تعیناتی عام طور پر اسی صورت میں ہوتی ہے ۔
جب ٹیکس حکام کو کسی کمپنی کی آمدنی یا ٹیکس ادائیگی کے حوالے سے شدید شکوک و شبہات ہوں۔سی ایس آر سرگرمیوں کے سلسلے میں جب چوہدری ذوالفقار انجم اور اس کے ترجمان زین ملغانی سے رابطہ کیا گیا تو ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا، تاہم مبینہ ٹیکس اور ایف بی آر کی ٹیموں کی تعیناتی کے حوالے سے زین ملغانی کا کہنا تھا کہ ایف بی آر ہر ادارے میں اپنی ٹیمیں بھیجتا رہتا ہے، لہذا وہ سمجھتے ہیں کہ اس نوٹس میں کوئی ایسی خاص بات نہیں ہے۔
زین ملغانی نے مزید وضاحت کی کہ ہر سال تین چار ماہ بعد ایسی ٹیمیں کبھی کسی فیکٹری میں تو کبھی کسی فیکٹری میں پہنچ جاتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس گروپ کی کافی فیکٹریاں ہیں جہاں ہر یونٹ میں ہر پانچ چھ ماہ بعد یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، جو کہ ایک معمول کی کارروائی ہے۔ترجمان نے کہا کہ جب بھی ایف بی آر اپنی ٹیموں کو کسی فیکٹری میں بھیجتا ہے تو اسی شق کا حوالہ دے کر بھیجتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ روٹین کا معاملہ ہے اور سال میں دو تین فیکٹریوں کو وہ اس طرح چیک کرتے ہیں۔
زین ملغانی نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں آن ریکارڈ سب سے زیادہ ٹیکس چوہدری ذوالفقار انجم ادا کرتے ہیں۔انہوں نے زور دیا کہ چوہدری ذوالفقار انجم اس سلسلے میں نہ تو کسی سے سودے بازی کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی ”مک مکا“ کرتے ہیں بلکہ، وہ میرٹ پر ہر ششماہی اور ہر سال کروڑوں روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب ایف بی آر کی ٹیمیں ان کی فیکٹریوں میں موجود ہیں اور ایک شہری ان کے مالیاتی گوشواروں کی تفصیلات مانگ رہا ہے۔عوامی اور شہری حلقوں نے وزیراعظم شہباز شریف اور چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال سے مطالبہ کیا کہ چوہدری ذوالفقار انجم اور اسے کے اہل خانہ کی ملکیتی کمپنیوں کی سی ایس آر سرگرمیوں کا خصوصی آڈٹ کرایا جائے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں