ایم این ایس یونیورسٹی:سیکرٹری زراعت کے ایماء پر ڈی جی اینٹی کرپشن نے گن پوائنٹ پر وی سی سے استعفیٰ لے لیا

محمد نواز شریف یونیورسٹی انتظامی بحران: ایکٹنگ وی سی سے زبردستی استعفیٰ

اسلام آباد (سپیشل رپورٹر/بیٹھک سپیشل) صوبے میں شعبہ زراعت کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کے مبینہ ذمہ دار، صوبائی سیکرٹری زراعت افتخار علی سہو نے اپنے دوست سابق وائس چانسلر محمد نواز شریف یونیورسٹی راؤ آصف علی کی خوشنودی کے لئے یونیورسٹی کو انتظامی بحران میں دھکیل دیا، اینٹی کرپشن کے ذریعے ایکٹنگ وائس چانسلر محمد نواز شریف یونیورسٹی ڈاکٹر اشتیاق احمد رجوانہ زبردستی استعفیٰ لینے کا انکشاف۔
ذرائع کے مطابق ملتان میں اپنی شام کی محفلوں کے میزبان سابق وائس چانسلر راؤ آصف علی کی ایک مرتبہ پھر وائس چانسلر تعیناتی کو یقینی بنانے کے لئے موجودہ سیکرٹری زراعت افتخار علی سہو نے بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے پہل وائس چانسلر کے لئے طے شدہ کرائٹیریا میں گڑبڑ کی ۔
جس کی وجہ سے معاملہ عدالت میں چلا گیا اور تاحال حل طلب ہے، انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق 14 جنوری 2024 کو راؤ آصف علی کی بطور وائس چانسلر دوسری ٹرم ختم ہونے کے بعد وائس چانسلر کی عدم موجودگی میں وائس چانسلر کا ایکٹنگ چارج پرو وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق رجوانہ کو سونپا گیا تھاانہوں نے بتایا ڈاکٹر اشتیاق رجوانہ کو وائس چانسلر کا چارج ملنے سے میاں محمد نواز شریف یونیورسٹی آف ایگریکلچر جسے اساتذہ، افسران اور ملازمین کی اکثریت رانا برادری سے ہونے کی وجہ سے تعلیمی حلقوں میں رانا یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے میں راؤ آصف علی اور اس کے حامی گروپ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی میں اندھی مچائے رکھنے والوں کے سرغنہ محمد رفیق فاروقی جس کی یونیورسٹی میں اپنی تعیناتی برخلاف میرٹ ہوئی ہے کی سربراہی میں مافیا ڈاکٹر اشتیاق رجوانہ کو ناکام بنانے کے لئے متحرک ہو گیا یہاں تک کہ وائس چانسلر کے دستخطوں کے بغیر سینڈیکیٹ کی ایک میٹنگ کے منٹس بھی یونیورسٹی سینڈیکیٹ ممبران کو بھیج دئیے گئے۔انہوں نے بتایا کہ کریٹریا میں گڑبڑ کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا جس پر عدالت نے وائس چانسلر کی تعیناتی کا عمل روک دیا ۔
انہوں نے بتایا کہ سیکریٹری ایگریکلچر افتخار سہو ایک انتہائی نااہل شخص ہے اور راو آصف کی طرح وہ خود بھی خانیوال ضلع کا رہائشی ہے اور راؤ آصف کو ایک مرتبہ پھر سے جلد از جلد وائس چانسلر تعینات کرانے کے لئے بے چین ہے کیونکہ اب ملتان آنے پر اس کی ویسی آؤ بھگت نہیں ہوتی جیسی راؤ آصف کے دور میں ہوتی تھی اور فارم ہاؤسز پر محفلیں جما کرتی تھیں، انہوں نے بتایا کہ راؤ آصف کی ایماء پر رفیق فاروقی نے ایک بے معنی سی درخواست ایکٹنگ وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق رجوانہ کے خلاف سیکریٹری افتخار علی سہو کو بھیجی اور منصوبے کے عین مطابق افتخار سہو کی ہدایت پر دو ریفرنسز بنا کر ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن کو بھیج دیا ۔
انہوں نے بتایا کہ افتخار علی سہو نے ڈی جی اینٹی کرپشن سہیل ظفر چٹھہ کو ان ریفرنسز پر کاروائی کی خصوصی سفارش کی سیکشن آفیسر، ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے 25 اپریل 2025 کو ایکٹنگ وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق رجوانہ کے خلاف بھیجے ایک خط میں تحریر کیا گیا کہ دو خود وضاحتی ریفرنسز محکمے کو اس درخواست کے ساتھ موصول ہوئے ہیں کہ ان کے حوالے سے فوری طور پر مناسب درست/لیگل ایکشن لیا جائے ریفرنسز کی نوعیت کے حوالے سے لکھا گیا کہ پہلا ریفرنس وقاص احمد کی یونیورسٹی میں 16ویں سکیل میں مستقل بنیادوں پر طریقہ کار کی بے ضابطگیوں اور حقائق کو چھپانے کے علاؤہ بطور ایکٹنگ وائس چانسلر ڈاکٹر رجوانہ کی جانب سے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے بطور ریسرچ سکالر تعیناتی ہے۔
،اینٹی کرپشن کو بھیجا جانا والا دوسرا ریفرنس اپنی نوعیت کا انتہائی مضحکہ خیز تھا جس کے بارے بتایا گیا کہ یہ ریفرنس ڈاکٹر رجوانہ کی جانب سے بطور ایکٹنگ وائس چانسلر مس کنڈکٹ سے متعلق ہے جنہوں نے یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ کے فیصلوں کے بر خلاف عمل کیا اور یونیورسٹی کے ایکٹ کی خلاف ورزی کی، ذرائع کے مطابق طے شدہ سکیم کے تحت ڈی جی اینٹی کرپشن معاملے کی انکوائری متعلقہ ریجنل آفس ملتان کو بھیجنے کی بجائے لاہور میں اپنے اعتماد کے افسران کو سونپتا ہے۔
جس کا نمبر 309/2025 ہے یوں ایکٹنگ وائس چانسلر ڈاکٹر رجوانہ کے علاؤہ ریسرچ آفیسر وقاص انور اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر باقر حسین کو لاہور طلب کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے انہوں نے بتایا کہ چونکہ دوسرا ریفرنس اینٹی کرپشن سے متعلق نہیں تھا لہذا سارا زور پہلے ریفرنس یعنی وقاص انور کی مبینہ غیر قانونی تعیناتی پر لگایا جاتا ہے اور ضمن میں چار کال اپ نوٹسسز جاری کئے جاتے ہیں ایکٹنگ وائس چانسلر اور متعلقہ لوگ اینٹی کرپشن کی انکوائری ٹیم کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور انکوائری کمیٹی کو بتاتے ہیں کہ وقاص انور کی تعیناتی عدالتی احکامات کی روشنی میں ہوئی ہے اور اس ضمن میں عدالتی احکامات بھی انکوائری کمیٹی کو پیش کئے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 16 جون کو ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن ایسٹبلشمنٹ لاہور نثار جوئیہ اور اسسٹنٹ ڈائریکٹرز احمد نواز اور ضیغم پر مشتمل ٹیم یونیورسٹی پہنچ کر رجسٹرار آفس پر دھاوا بول دیتی ہے رجسٹرار سمیت یونیورسٹی سٹاف کو ہراساں کرنا شروع کر دیتی ہے اور دفتر کا ریکارڈ قبضے میں لے لیتی ہے انہوں نے بتایا کہ اس بیچ انکوائری ٹیم شام 6 بجے کے لگ بھگ وائس چانسلر کو بلاتی اور ان سے انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کرتی ہے اور انہیں بتاتی ہے کہ انہوں نے ریسرچ آفیسر کو تعینات کر کے بہت بڑا جرم کر لیا ہے تاہم وائس چانسلر کو ہراساں کرنے کے بعد جانے دیا جاتا ہے اس بیچ وقاص انور کی تعیناتی کی سفارش کرنے والی کمیٹی کے ایک ممبر کو اینٹی کرپشن ایسٹبلشمنٹ ملتان آفس طلب کیا جاتا ہے اور اسے بتایا جاتا کہ تمام معاملہ ختم ہو سکتا ہے اگر ڈاکٹر اشتیاق رجوانہ استعفیٰ دیدیں انہوں نے بتایا کہ مذکورہ ممبر ڈاکٹر رجوانہ کو مل کر صورتحال سے آگاہ کرتا ہے تاہم ڈاکٹر رجوانہ مستعفی ہونے سے انکار کر دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اگلے روز کمیٹی کے ممبران اور ڈاکٹر رجوانہ کو پھر اینٹی کرپشن آفس ملتان طلب کیا جاتا ہے اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ اگر ڈاکٹر رجوانہ نے استعفیٰ نہ دیا تو نہ صرف ان پر وقاص انور کی غیر قانونی بھرتی کا مقدمہ درج کیا جائے گا بلکہ اور کیسسز بھی بنائے جائیں گے اور ان کے کیرئیر تباہ کر دئیے جائیں گے انہوں نے بتایا کہ کمیٹی ممبران اور ڈاکٹر رجوانہ کو بتایا گیا کہ ڈی جی اینٹی کرپشن سہیل ظفر چٹھہ کی واضح ہدایت ہے کہ استعفیٰ لیکر آنا ہے یا گرفتار کر کے لانا ہےانہوں نے بتایا کہ ایکٹنگ وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق رجوانہ اپنے قریبی حلقوں سے مشورہ کرنے کا وقت لیکر چلے جاتے ہیں اور آخر کار گرفتاری دینے کی بجائے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔
کیونکہ جس شخصیت سے انہوں نے مشورہ کیا اس شخصیت نے انہیں بتایا کہ سیکریٹری ایگریکلچر افتخار علی سہو نے اس معاملے کو انا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے وہ اپنے تمام اختیارات اور تعلقات انہیں نقصان پہنچانے کے لئے صرف کر دے گا انہوں نے بتایا کہ استعفیٰ کے لئے دباؤ کے دوران ایک مرتبہ یہ مطالبہ بھی سامنے رکھا گیا کہ وائس چانسلر کی تعیناتی کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ میں دائر کئے گئے کیس کو بھی واپس لیا جائے تاہم بعد ازاں کہا گیا کہ کیس واپس لینا ضروری نہیں ہے صرف استعفیٰ دیدیا جائے تو کافی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کمیٹی ممبران اور ڈاکٹر رجوانہ کو یقین دہانی کروائی گئی کہ استعفیٰ کی صورت میں تمام کاروائی فوری طور پر روک دی جائے گی انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر رجوانہ نے دفتر جا کر اپنا استعفیٰ چانسلر/گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان اور سیکریٹری زراعت افتخار علی سہو کو بھجوا دیا جس کے بعد لاہور سے آئی اینٹی کرپشن کی ٹیم واپس چلی گئی اور اس کے بعد وقاص انور کی بھرتی کے حوالے سے دوبارہ کوئی رابطہ کیا گیا نہ ہی کوئی کاروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
جبکہ ڈاکٹر رجوانہ کو باوجود اس کے کہ چانسلر/گورنر پنجاب نے تاحال استعفیٰ قبول نہیں کیا آفس چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے یونیورسٹی ذرائع کے مطابق یہ سارا معاملہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے سے جڑا ہے جس کے تحت یونیورسٹی کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ وقاص انور کی تقرری سے متعلق کیس پر فیصلہ کرے، جو ایک دہائی سے زیر التوا تھا۔انہوں نے بتایا کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے، پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد رجوانہ نے سینئر پروفیسرز اور ڈینز پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی اور چونکہ مذکورہ ایڈمن آفیسر کی آسامی 2018 میں ایک حکومتی نوٹیفکیشن کے ذریعے ختم ہو چکی تھی اس لیے اس کمیٹی نے امیدوار کو بی پی ایس 16 پر ریسرچ اسسٹنٹ کی حیثیت سے تعینات کرنے کی سفارش کی۔
، جو کہ یونیورسٹی ایکٹ کے تحت وائس چانسلر کو حاصل اختیارات کے مطابق کی گئی تھی۔اس سلسلہ میں روزنامہ بیٹھک نے جب ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن سہیل ظفر چٹھہ، سیکریٹری زراعت افتخار علی سہو اور پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق رجوانہ کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو وہ رابطے میں نہ آ سکے۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں