تحریر: خواجہ محمد اقبال
جنوبی پنجاب ایک ایسا خطہ جو حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا نشانہ بنا۔ دریائے ستلج، راوی اور چناب میں آنے والی طغیانی نے یہاں کی بستیوں، فصلوں، مال مویشیوں اور ہزاروں گھروں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔ آج جب پانی کی سطح بتدریج کم ہو رہی ہے، تو تباہی کے نشانات اور متاثرین کی بے سروسامانی واضح ہو کر سامنے آ رہی ہے۔ ایسے میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی جانب سے سیلاب زدہ علاقوں میں نقصانات کا تخمینہ لگانے اور متاثرین کو امداد فراہم کرنے کے احکامات یقیناً ایک خوش آئند قدم ہے۔ تاہم، اس وقت سب سے اہم اور بنیادی مطالبہ یہی ہے کہ یہ سروے مکمل طور پر شفاف، تیز رفتار اور منصفانہ ہونا چاہیے۔
سیلاب متاثرین کے نقصانات کا درست اندازہ لگانا ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔ خبروں کے مطابق، حکومت پنجاب نے بروقت ریسکیو اور ریلیف آپریشنز کے لیے پاک فوج کی مدد سے نقصانات کے تخمینے کا کام شروع کر دیا ہے۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے جس کی بدولت ڈیٹا اکٹھا کرنے کا عمل مزید مستند ہو سکتا ہے۔ مگر سیلاب نے جو زخم دیے ہیں، وہ صرف ریلیف کیمپوں میں خیمے اور خوراک پہنچانے سے مندمل نہیں ہوں گے۔ جن لوگوں کے کچے یا پکے مکانات گر گئے ہیں، جن کسانوں کی سلّو (موسم سرما کی فصلوں کی بوائی کی تیاری) تباہ ہو گئی ہے، جن غریبوں کے مال مویشی سیلابی ریلوں کی نذر ہو گئے ہیں، ان کے لیے صرف رسمی امداد کافی نہیں۔
وزیراعلیٰ مریم نواز کو خصوصی طور پر اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ سروے ٹیمیں کسی بھی سیاسی یا انتظامی دباؤ سے بالاتر ہو کر کام کریں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں بھی قدرتی آفات کے بعد ہونے والے نقصانات کے سروے میں شفافیت کا فقدان رہا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مستحق افراد امداد سے محروم رہ گئے جبکہ بااثر یا غیرمستحق لوگ فائدہ اٹھا گئے۔گھروں کے نقصانات کا اندازہ لگاتے وقت کچے اور پکے مکانات کی تباہی کے فرق کو واضح کیا جائے اور ان کے ازالے کے لیے ایک مناسب ریلیف پیکیج کا اعلان کیا جائے۔سیلابی پانی کے کھڑے رہنے سے کسانوں کو پہنچنے والے دوہرے نقصان – یعنی کھڑی فصلوں کی تباہی اور سلّو کے لیے زمینوں کا ناقابلِ کاشت ہو جانا – کا مکمل احاطہ کیا جائے۔لائیو سٹاک (مال مویشی) کا نقصان غریب دیہی گھرانوں کے لیے ایک بڑا المیہ ہے، اس لیے مویشیوں کی ہلاکت کا معاوضہ جلد اور ان کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق ادا کیا جائے۔پاک فوج، پی ڈی ایم اے اور مقامی انتظامیہ کی مشترکہ ٹیموں پر مشتمل سروے کے عمل کی باقاعدہ غیر جانبدارانہ مانیٹرنگ ہونی چاہیے۔ آن لائن پورٹلز اور شکایات کے مراکز قائم کیے جائیں جہاں متاثرین آسانی سے اپنی رجسٹریشن کرا سکیں اور سروے میں کسی بھی غلطی یا بدعنوانی کی صورت میں شکایت درج کرائی جا سکے۔نقصانات کے ازالے کے ساتھ ساتھ، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بنیادی انفراسٹرکچر، ہسپتالوں اور سکولوں کی بحالی کا ایک جامع ٹائم فریم دیا جائے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔یہ سیلاب صرف گھروں کی دیواریں نہیں گرا گیا، بلکہ لوگوں کے اعتماد کو بھی مجروح کر گیا ہے۔
اس وقت جنوبی پنجاب کے متاثرین بے بسی کے عالم میں حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔ وزیراعلیٰ مریم نواز کا اس خطے کی طرف خصوصی توجہ دینا ضروری ہے، تاکہ یہ پیغام واضح ہو کہ یہ حکومت سیلاب زدگان کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔ نقصانات کے سروے کو صرف اعداد و شمار کا کھیل نہیں، بلکہ درد اور ہمدردی پر مبنی ایک انسانی فریضہ سمجھا جائے، جس سے متاثرین کی بحالی کا عمل جلد اور باعزت طریقے سے مکمل ہو سکے۔ یہ موقع ہے کہ حکومت شفیق ماں کی طرح اپنے عوام کے زخموں پر مرہم رکھے اور ملک کی تاریخ میں ایک مثالی ریلیف اور بحالی کا ماڈل قائم کرے۔