بیشک علم وہ روشنی ہے جس کی لَو سے تاریکی کے اندھیرے شمع اُجالاسے ہمکنار ہو کر شعور کی دھنک پر وہ رنگ بکھیرتے ہیں جس سے جہالت کا خاتمہ ممکن ہوا ۔اللہ کریم نے کلام الہٰی میںاپنے پیارے محبوب کریم محمدﷺ کوارشاد فرما یا کہ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا‘‘ یعنی آدمؑ کے اس دُنیا میں تشریف لانے کے ساتھ ہی بذریعہ قلم لکھنے پڑھنے کے عمل کا آغاز ہوا اور یوں من کی آپ بیتی تحریر کی شکل اختیار کرتی گئی اور رابطے ایک دوسرے کے ساتھ استوار ہوتے چلے گئے ۔ چنانچہ علم ہی وہ طاقت ہے جس کو بروئے کار لاکر ترقی کا عمل آہستہ آہستہ عروج پانے لگا اور انسان سمندروں ، دریائوں اور خلائوں سے راستے بناتے ہوئے جدید سے جدید کی طرف گامزن ہوا ۔یوں تو ماضی کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ چاروں اطراف تعلیم کا فقدان تھا اور کچھ حاصل کرنے کی پاداش میں سخت محنت کی ضرورت تھی اور پھر مسلسل جدوجہد کے بعد حصول مقصد ممکن ہوا۔معاشرےمیں بسنے والے ہر فرد کو قلمی شعور سے واسطہ نہ تھا ۔دل کی بات دل میں اور شکایت کا کسی بھی وقت ازالہ ممکن نہ تھا۔تعلیمی ادارے صرف اور صرف سالانہ نصاب تک محدود تھے ۔لکھائی کا عمل صرف سلیٹ اور تختی تک محدود تھا ۔معاشرےمیں علم کی اشاعت و ترویج کیلئے اساتذہ اپنا کردار صداقت و ایمانداری کے ساتھ ادا کرتے ۔خوف خدا سے انسان تو کیا زمین بھی لرز جاتی تھی ۔حصول انصاف کیلئے با وضو عدالتیں لگائی جاتی تھیںجہاں کسی بھی قسم کی سفارش و آشیر باد کا تصور نہ تھا۔غریب و امیر سب کیلئے قانون یکساں تھا ۔علم التعلیم کا فقدان تھا لیکن فہم و فراست کو فوقیت حاصل تھی ۔جدید دور کے تقاضوں نے ہر فرد کیلئے سہولیات کی بھرمار کر دی ہے ۔راقم و قاری گوگل ویب سائٹ پر سر جوڑے بیٹھے ہیں یعنی فاصلے سمٹ کر رہ گئے اور رابطہ چند سیکنڈ کا محتاج ہے ۔قارئین کرام! بیشک معاشرےکی خوشحالی کا مکمل دارومدار پُرامن فضاہی پر منحصر ہے ۔جرائم سے پاک معاشرہ دراصل امن و سکون ہی کا مرہون منت ہے لیکن اگر معاشرے میں جرائم کی کثرت ہوجائے اور شہری خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگیں اور شنوائی کا کہیں نام ونشان نہ ہو توایسے میں معاشرےکاہر فرد مضطرب و مصائب کا شکار ہوجاتا ہے ۔یہ بھی درست ہے کہ آزاد میڈیا کی کاوشوں کی بدولت خطہ میں ہونے والے کسی بھی ظلم و ناانصافی کی رپورٹ جلد ہی ارباب اختیار تک پہنچا دی جاتی ہے ۔جی قارئین ! محمد کامران خان ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف سائوتھ پنجاب پولیس ملتان نے جنوبی پنجاب کے سینئرکالم نگار/مصنفین کی ٹیم کو عزت افزائی کے ساتھ شرف ملاقات کا موقع عنایت فرمایا ۔آپ خوبصورت ،دلکش ، پُررونق مسکراہٹ کے ساتھ فرداً فرداً سب کے سوالات کے جوابات دے رہے تھے ۔آپ فرض شناسی اور ایمانداری کے ساتھ عوام کے مسائل کے تدارک بارے معاملہ فہم آفیسر ہیں۔آپ نے دوران گفتگو تجزیہ کاروں کی جانب سے عوامی مسائل سماعت فرمائے ۔یہ بھی درست ہے کہ ظالم کے ظلم سے نجات کیلئے از حد ضروری ہے کہ بات کریں کیونکہ جب تک شکایات کا عملاً اقدام نہیں ہوگا تب تک گنہگار سزا نہیں پائے گا ۔ اس موقع پر کچے کے علاقے میں پولیس کے اقدامات کو سراہا گیا ۔ضلع ملتان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی چوری ، ڈکیتی کے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے گفتگو ہوئی اور عملی کارروائی کا عندیہ دیا گیا ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جرائم کی روک تھام کیلئے پولیس و عوام کا تعاون اشد ضروری ہے ۔بیشک لب کشائی سے ہی جرائم کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔خاموش رہنے اور لب سی لینے سے یا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے کبھی قبضہ ، چوری ، ڈکیتی ،قتل و غارت کا تدارک ممکن نہیں۔پولیس کا ہے فرض مدد آپکی ۔چنانچہ اس امر کو یقینی سطح تک متحرک رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ عوام کی دادرسی کو صداقت و ایمانداری کے ساتھ یقینی بنا یا جائے۔ جی قارئین!دُنیا گلوبل ویلج ہے اور سوشل میڈیا،ٹک ٹاک اور امن کے محافظ اداروں کے سربراہان ہر لمحہ ہر آن سائیٹس پر خدمات کیلئے موجود ہیں ۔مدعی کے ساتھ ہونے والے ظلم وستم، ناانصافی اور گنہگار کو جلد کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ کھلی کچہریوں کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ ظالم کو اس کے گناہ کی سزا دی جائے اور معاشرہ کو جرائم سے پاک کیا جائے ۔ پُرامن ، پُرسکون معاشرہ دراصل پولیس کے تعاون کا ہی مرہون منت ہے۔

جرائم کے خاتمہ میں پولیس کا کردار
-