روئی خریداری میں دلچسپی کی وجہ سے بھاؤ میں اضافے کا رجحان برقرار

ملتان (بیٹھک سپیشل /رپورٹ: نسیم عثمان)مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران ٹیکسٹائل و اسپنرز کی جانب سے روئی کی خریداری میں دلچسپی کی وجہ سے بھاؤ میں اضافہ کا رجحان برقرار رہا روئی کے بھاؤ میں اضافہ ہونے کی دو بڑی وجوہات ہیں مقامی طور پر دن بدن روئی کا اسٹاک محدود ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب نیویارک کاٹن کے بھاؤ میں مسلسل اضافہ کا رجحان برقرار ہے جو بڑھ کر فی پاؤنڈ 94 تا 95 امریکن سینٹ کی اُونچی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ کاروباری حجم نسبتاً محدود ہے۔ حکومت کی جانب سے توانائی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ بلند شرح سود ریفنڈز میں غیر معمولی تاخیر وغیرہ کی وجہ سے ملک میں صنعتیں بشمول ٹیکسٹائل سیکٹر شدید بحرانی کیفیت میں مبتلاہے I M F نے توانائی کی قیمت 14 سینٹ سے کم کرکے 9 سینٹ کی تجویر مسترد کردی علاوہ ازیں گیس اور توانائی کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ کردیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ حکومت نے گیس کی قیمت میں مزید ہوشربا اضافہ کرکے ملک کی صنعتوں کی تباہی کردی ہے ملک کی برآمد متاثر ہوگی اور علاقائی ممالک سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ٹیکسٹائل مصنوعات کی لاگت بہت ہی بڑھ جائے گی پہلے ہی مارکیٹ میں زبردست مالی بحران ہے علاوہ ازیں APTMA نے خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کی وجہ سے 50 فیصد مزید ٹیکسٹائل سیکٹر بند ہو جائے گا جس کی وجہ سے پہلے ہی ملک میں بے روزگاری اور بیکاری کا طوفان برپا ہوا ہے اس میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ دوسری جانب ملک میں سیاسی بحران کی وجہ سے بھی انتشار کا خطرہ پیدا ہونے کا اندیشہ بڑھ جائے گا مہنگائی اور بے روزگاری اور عدم استحکام حد سے زیادہ بڑھتا جارہا ہے۔ حکومت کو ان سب خطرات میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔صوبہ سندھ و پنجاب میں روئی کی فی من قیمت 500 تا 1000 روپے کے اضافہ کے ساتھ فی من 2000 تا 22500 روپے صوبہ پنجاب میں پھٹی کا بھاؤ 8500 تا 10500 روپے ہوگیا جبکہ بنولہ، کھل اور تیل کا بھاؤ مستحکم ہے۔ کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میںفی من 1000 روپے کا اضافہ کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 21500 روپے کے بھاؤ پر بند کیا۔ کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن مارکیٹ میں روئی کے بھاؤ میں نمایا اضافہ ہوا۔ نیو یارک کاٹن کے وعدے کا بھاؤ بڑھ کر فی پاؤنڈ 94 تا 95 امریکن سینٹ کی اونچی سطح پرپہنچ گیا۔ جسکا مقامی کاٹن پر مثبت اثر ہورہا ہے۔ USDA کی ہفتہ وار برآمدی اور فروخت رپورٹ کے مطابق سال 24-2023 کیلئے 1 لاکھ 60 ہزار 500 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔چین 57 ہزار 800 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔ترکی 34 ہزار 700 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔پاکستان 28 ہزار 300 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔سال 25-2024 کیلئے 7 ہزار 700 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔ترکی 2 ہزار 200 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔پاکستان 2 ہزار 200 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔میکسیکو 2 ہزار 100 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔برآمدات 2 لاکھ 76 ہزار 100 گانٹھوں کی ہوئی۔چین 1 لاکھ 19 ہزار گانٹھیں درآمد کرکے سرفہرست رہا۔ویت نام 38 ہزار 800 گانٹھیں درآمد کر دوسرے نمبر پر رہا۔پاکستان 33 ہزار 300 گانٹھیں درآمد کرکے تیسرے نمبر پر رہا۔دریں اثنا آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) نے ایک بار پھر بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے اور صنعت بالخصوص ٹیکسٹائل انڈسٹری پر ان کے اثرات کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو 50 فیصد سے زائد صنعت بند ہونے کا خطرہ ہے۔نگران وزیر برائے پاور اینڈ پیٹرولیم محمد علی، ایگزیکٹو ڈائریکٹر اپٹما شاہد ستار کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے پاکستان کی ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی برآمدات کی بین الاقوامی مسابقت مسلسل کم ہو رہی ہے جو کہ اوسطاً دو گنا سے زیادہ ہے۔ جو مسابقتی ممالک میں ہیں اور وزیر پاور کی توجہ کے قابل ہیں۔اپٹما کے مطابق، صنعتی صارفین کے لیے بجلی 16.7/kWh سینٹس کے ارد گرد منڈلا رہی ہے اور گیس کی قیمت ایک سال پہلے کی موجودہ قیمت 2,200/MMBTU اور 852/MMBTU سے بڑھا کر 2,950/MMBTU کی جا رہی ہے۔خط میں، APTMA نے دلیل دی کہ موجودہ توانائی کی شرحوں پر، پیداوار مالی طور پر ممکن نہیں ہے اور اس شعبے کی برآمدات جمود کا شکار ہو گئی ہیں کیونکہ ملک نے نمایاں طور پر کم توانائی کے نرخوں کے ساتھ علاقائی معیشتوں جیسے بنگلہ دیش، بھارت اور ویتنام کے لیے مارکیٹ شیئر کھو دیا ہے۔ٹیکسٹائل کے برآمد کنندگان نے کہا کہ عبوری حکمرانی نے اقتصادی معاملات میں ” دخل اندازی” کے لیے ایک بار پھر شدید تنقید کی ہے جس نے توانائی کی قیمتوں کو “تاریخی” سطح پر بڑھا کر قومی معیشت کو تباہی میں ڈال دیا۔ان کا کہنا تھا کہ عبوری حکومت بنیادی طور پر انتخابات کے انعقاد کی ذمہ دار ہے اور معیشت کے ساتھ کشتی نہیں ہے۔ انہوں نے اسے “دانستہ” اور”انجینئرڈ” مقاصد کے لیے بھی مورد الزام ٹھہرایا جس کی وجہ سے صنعتی سست روی ہوئی اور اس کے پورے دور میں ملک کی برآمدات کو سبوتاژ کیا۔محمد جاوید بلوانی، چیف کوآرڈینیٹر ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل فورم، مبشر نصیر بٹ، چیئرمین پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، محمد عثمان، ٹاول مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن اور خالد مجید، چیئرمین، ڈینم مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے مشترکہ طور پر انٹرم سیٹ اپ کا انعقاد کیا۔علاوہ ازیں سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان کے شعبہ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کے سربراہ ساجد محمود نے کہا ہے کہ کپاس کے کاشتکار اگیتی کپاس سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کیلئے سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان اور محکمہ زراعت پنجاب کے مشورہ سے منظور شدہ اقسام ہی کاشت کریں کیونکہ غیر منظور شدہ اقسام پر نقصان دہ کیڑوں و بیماریوں کا حملہ زیادہ ہوتا ہے اور پیداوار بھی کم حاصل ہوتی ہے۔جمعہ کوپاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (PBS) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، ٹیکسٹائل اور کپڑے کی برآمدات میں جنوری میں مسلسل دوسرے مہینے اضافہ ہوا۔جنوری میں اس شعبے کی برآمدات 10.10 فیصد بڑھ کر 1.45 بلین ڈالر ہوگئیں جو پچھلے سال کے اسی مہینے میں 1.32 بلین ڈالر تھیں۔ ماہ بہ ماہ برآمدات میں 3.33 فیصد اضافہ ہوا۔تاہم، مالی سال 24 کے پہلے سات مہینوں میں، ٹیکسٹائل اور کپڑے کی برآمدات گزشتہ سال کے اسی مہینوں میں 10.03 بلین ڈالر سے 2.99 فیصد کم ہو کر 9.73 بلین ڈالر رہ گئیں۔ کمی کی وجہ توانائی کے زیادہ اخراجات اور لیکویڈیٹی کی کمی کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہے۔تاہم، یہ غیر یقینی ہے کہ آیا پچھلے دو مسلسل مہینوں میں نمو میں اضافہ کا یہ رجحان آئندہ مہینوں میں بھی برقرار رہے گا۔