یروشلم کی مسجد اقصیٰ میں رمضان کے مہینے میں اکثر کشیدگی کی صورتحال رہتی ہے۔ اس بار 10 مارچ سے رمضان کا مہینہ شروع ہو رہا ہے اور ایک بار پھر یہاں کشیدگی بڑھنے کا امکان ہے۔ اس کے پیچھے وہ رپورٹیں ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل رمضان المبارک کے دوران الاقصیٰ میں مسلمانوں کے داخلے کے حوالے سے مزید پابندیاں عائد کر سکتا ہے۔ رمضان المبارک کے دوران مسلمانوں کی بڑی تعداد مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرتی ہے لیکن اطلاعات کے مطابق غزہ میں فوجی آپریشن کرنے والا اسرائیل سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر مسلمانوں کے مسجد اقصیٰ میں داخلے کے حوالے سے قوانین کو سخت کر سکتا ہے۔ حماس کے حملے کے بعد سے اسرائیل نے مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو الاقصیٰ جانے سے روک دیا ہے اور اسرائیل میں رہنے والے عرب شہریوں پر بھی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ کچھ لوگ امید کر رہے تھے کہ رمضان المبارک کے دوران ان پابندیوں میں نرمی کی جا سکتی ہے لیکن اب ان میں اضافے کی بات ہو رہی ہے۔
نئی پابندیوں کا اطلاق مغربی کنارے کے فلسطینیوں اور عرب نژاد اسرائیلی شہریوں پر بھی ہو سکتا ہے۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا گیا ہے تاہم وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ کے ساتھی کھل کر پابندیاں عائد کرنے کی وکالت کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی داخلی سلامتی کے ادارے شن بیٹ نے مبینہ طور پر وزراء کو خبردار کیا ہے کہ اگر الاقصیٰ کے احاطے میں عرب اسرائیلیوں کے داخلے پر پابندیاں عائد کی گئیں تو یہ مسئلہ مذہبی تنازعہ کی شکل ۔ سرکاری نشریاتی ادارے کان کی رپورٹ کے مطابق شن بیٹ کے ڈائریکٹر رونن بار نے ایک ملاقات میں کہا کہ عرب اسرائیلیوں پر پابندیاں عائد کرنے سے ناراضگی بڑھے گی اور حماس کو فائدہ ہوگا۔ قبل ازیں اسرائیلی حکام نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ غزہ میں اسرائیل کی مہم سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں غصہ پیدا ہونے کی وجہ سے رمضان المبارک کے دوران الاقصیٰ کی صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔
اسرائیلی وزیر کی تجویز
اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر بن گویر نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ اسرائیلی سیکیورٹی فورسز مغربی کنارے میں مقیم فلسطینیوں کو الاقصیٰ جانے سے روکیں۔ نیتن یاہو کی کابینہ کے انتہائی دائیں بازو کے رکن بین گویر نے کہا کہ ‘یہ پابندیاں اس لیے ضروری ہیں کہ ہمیں فلسطینی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو کسی بھی طرح اسرائیل میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ اسرائیل کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ ان کا مشورہ ہے کہ اسرائیلی شہریت کے حامل عرب جن کی عمر 70 سال سے کم ہے رمضان المبارک کے دوران انہیں الاقصیٰ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔ میڈیا تنظیم این پی آر کی خبر کے مطابق نیتن یاہو کے دفتر نے کہا ہے کہ ‘اس تجویز پر غور کیا جا رہا ہے لیکن کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے۔’اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ الاقصیٰ میں داخلے کی اجازت دینے کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ فیصلہ کیا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے دو عہدیداروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ اتوار کو نیتن یاہو کی کابینہ میں اس بات پر بحث ہوئی کہ آیا اسرائیلی عرب کمیونٹی کے لوگوں کو الاقصیٰ کے احاطے میں داخل ہونے سے روکا جائے یا نہیں۔ اخباری رپورٹ کے مطابق ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیکیورٹی سروسز سے سفارشات موصول ہونے کے بعد ہی اس حوالے سے کوئی فیصلہ آنے والے دنوں میں کیا جائے گا۔