جس کیس کی سماعت نو بجے تک جاری تھی اس میں تشویش کیا تھی؟ اسلام آباد ہائی کورٹ

“اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ سیفر کیس میں اتنی جلدی کیا تھی کہ رات 9 بجے بھی سماعت جاری تھی۔ منصفانہ ٹرائل کے لیے قانونی تقاضے پورے کیے جائیں۔”
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سیفر کیس میں سزا کے خلاف عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیل پر سماعت ہوئی۔ پی ٹی آئی کے بانی وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ پیش ہوئے۔وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ 5 اکتوبر 2022 کو کس نے تفتیش شروع کی؟ اس حوالے سے عدالتی ریکارڈ پر کوئی دستاویز موجود نہیں، اگر یہ دستاویز ریکارڈ پر نہیں تو یہ کیس کی بنیاد نہیں بنے گی، تفتیشی افسر نے اپنے بیان میں کہا کہ ڈی جی کی ہدایت پر 5 اکتوبر کو تفتیش شروع کی گئی۔ ایف آئی اے، ڈی جی ایف آئی اے کیس میں ایک گواہ تک نہیں، شکایت درج ہونے سے پہلے ہی تفتیش شروع کر دی گئی، ایسی صورت حال میں پورا ڈھانچہ گر جائے گا۔چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ نہ تو وائٹ کالر کیس ہے اور نہ ہی قتل کیس، بلکہ مکسڈ ہائبرڈ کیس ہے۔ “بچہ”، شام کی سماعت کی کیا حیثیت ہو گی؟ وہ اس حوالے سے یہ بھی پوچھیں گے کہ کیا رات 9 بجے بھی سماعت جاری رہنے کا کوئی خدشہ تھا؟ آرٹیکل 10A کے مطابق منصفانہ ٹرائل کے تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ ٹرائل میں کیا جلدی تھی؟ اس پر وکیل نے کہا کہ شاید وہ کسی ڈیڈ لائن تک پہنچنا چاہتے تھے، اگر میں یہ کہوں کہ یہ اسلام آباد کی تاریخ کا سب سے متنازعہ ٹرائل تھا تو کوئی عجیب بات نہیں ہوگی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ یہ دونوں سرکاری وکیل عدالت نے تعینات کیے ہیں۔ ، کیا ایڈووکیٹ جنرل نے نام بھیجے؟ سلمان صفدر نے کہا جی ہاں! یہ تقرریاں ایڈووکیٹ جنرل نے کی ہیں۔ عدالت نے کہا کہ پھر ایڈووکیٹ جنرل کو سننا پڑے گا کہ ان سرکاری وکلا کی کیا حیثیت تھی؟بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے پی ٹی آئی کے بانی اور شاہ محمود قریشی کے لیے عوامی وکلاء کی سفارش کی تھی۔ عدالت نے پی ٹی آئی کے بانی شاہ محمود قریشی کی اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔