غزہ میں جنگ بندی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ اب یک طرفہ لڑائی بن چکی ہے۔ اسرائیلی فورسز عزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں بغیر کسی مزاحمت کے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔دوسری جانب اقوام متحدہ اور طاقتور ممالک اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں اپنا رہے ہیں جس کی وجہ سے غزہ میں جنگ بندی نہیں ہو رہی۔ اسرائیلی فوج غزہ پر مسلسل حملے کر رہی ہے۔بین الاقوامی میڈیا کے مطابق جمعہ کو بھی کئی فلسطینی شہریوں کی شہادت کی اطلاعات ہیں۔ عالمی طاقتوں کی آپس میں لڑائی، مسلم ممالک کی قیادت کی بے حسی، عرب لیگ اور او آئی سی کی خاموشی نے فلسطینیوں میں شدید مایوسی پیدا کر دی ہے۔ یہ اس وقت ناممکن نظر آتا ہے جب حماس کے لیے بین الاقوامی حمایت میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہو۔ایران، یمن اور حزب اللہ، جو کہ حوثی انتظامیہ کے کنٹرول میں ہیں، حماس کی حمایت کرتے ہیں، لیکن ان کے پاس بھی بڑی کامیابی حاصل کرنے کی طاقت اور صلاحیت نہیں ہے۔ اس طرح غزہ میں فلسطینی مسلسل جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں۔امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی تجویز پیش کی۔ کل روس اور چین نے اس تجویز کو ویٹو کر دیا۔ شمالی افریقی مسلم ملک الجزائر نے بھی قرارداد کی مخالفت کی جب کہ گیانا نے احتجاج نہیں کیا۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق امریکا کی جانب سے پیش کی گئی تجویز کے حق میں 11 ووٹ ڈالے گئے۔اطلاعات کے مطابق قرارداد میں حماس کی مذمت بھی کی گئی ہے۔ اپنے ردعمل میں روسی سفیر نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کو لگام دینے کے لیے کچھ نہیں کر رہا۔ ہم نے ایک منافقانہ فریب کا مشاہدہ کیا ہے۔ غزہ میں جنگ بندی جاری رہنے کے بعد انہیں کھیلنے اور ہڈیاں بنانے کے لیے۔یہ تجویز اسرائیل کو سزا سے استثنیٰ یقینی بنائے گی۔ قرارداد کے مسودے میں اسرائیل کے جرائم کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔روس کا موقف اور ردعمل یقیناً درست ہے، روسی سفیر کی جانب سے اٹھائے گئے نکات بہت اہم ہیں، اسرائیل نے غزہ میں جو تباہی برپا کی ہے اس کا جوابدہ ہونا ضروری ہے، لیکن اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے تھا۔ اس وقت فلسطینیوں کو جنگ روکنے کے لیے یہ سب سے بڑی راحت ہے۔کیونکہ اس جنگ یا لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان غزہ میں رہنے والے شہریوں کا ہو رہا ہے لیکن غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائی کو جنگ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہاں اسرائیلی فوج کے خلاف کوئی فوج موجود نہیں ہے۔ یہ اسرائیل کی کھلی نسل کشی کی مہم ہے۔عالمی عدالت انصاف نے بھی یہی اعلان کیا ہے۔ تاہم عالمی طاقتوں کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو کسی بھی ضروری طریقے سے مستقل بنیادوں پر روکیں تاکہ فلسطینیوں کی جان و مال، عزت و آبرو کا تحفظ ہو اور وہ اپنے گھروں کو واپس جا سکیں۔ روس اور چین کی جانب سے امریکی تجویز کو ویٹو کرنے کے بعد فرانسیسی صدر نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کی نئی تجویز پر کام کریں گے۔ادھر امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلینکن جو ان دنوں مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں، سعودی عرب اور مصر کے دورے کے بعد اسرائیل پہنچ گئے ہیں اور وار کونسل کے اجلاس میں شرکت کی۔ بلینکن نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو خبردار کیا کہ اسرائیل کی سلامتی خطرے میں ہے، اسرائیل کے تنہا ہونے کا خطرہ ہے اور اگر اسرائیل نے بغیر منصوبہ بندی کے جنگ جاری رکھی تو اسے ایک بڑی بغاوت کا سامنا کرنا پڑے گا۔اسرائیل غزہ میں پھنسا رہے گا۔ اسرائیل کے وزیراعظم انتھونی بلینکن نے واضح کیا ہے کہ ان کے خدشات اور انتباہات کے باوجود فلسطینی علاقے رفح پر حملہ ناگزیر ہے۔ حماس کے پاس رفح پر حملہ کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے تاکہ بچے کچھوؤں کو ختم کیا جا سکے۔ اسرائیل نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اس نے حماس کے رہنما رعد سعد اور دیگر رہنماؤں کو غزہ کے شفا اسپتال سے گرفتار کیا ہے، تاہم حماس نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔اسرائیل کے اسٹریٹجک امور کے وزیر رون ڈرمر نے کہا ہے کہ حماس کے 25 فیصد حقیقی جنگجو رفح میں ہیں۔ اگر امریکہ سمیت پوری دنیا ہمارے خلاف ہو جائے تو ہم رفح پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل ایک اور بڑے پیمانے پر نسل کشی کی تیاری کر رہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا نے یہ بھی بتایا کہ حماس نے اسرائیلی جارحیت کے جواب میں جوابی حملوں کی ویڈیو جاری کی اور تین اسرائیلی ٹینکوں کو تباہ کر دیا۔
اسرائیل نے مغربی کنارے میں وادی اردن میں تقریباً 2000 ایکڑ رقبے پر یہودی آباد کاری کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے کہا ہے کہ غزہ کی 24 لاکھ آبادی کو قحط سے بچانے کا واحد حل زمینی راستے کھولنا ہے۔ 27 فلسطینی بھوک اور پیاس سے مر گئے۔ لندن میں برطانوی پارلیمنٹ کے باہر خواتین سر منڈوا کر اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ سنگاپور نے پہلی بار غزہ کو فضائی امداد فراہم کی۔اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ سینٹر نے کہا ہے کہ اسرائیلی حملے سے غزہ میں 88 ہزار 868 عمارتوں کو نقصان پہنچا، 35 فیصد عمارتیں تباہ ہوگئیں۔ دنیا بھر کے دباؤ کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ہمت نہیں ہار رہے، وہ پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ جب تک حماس مکمل طور پر تباہ نہیں ہو جاتی اس وقت تک مستقل جنگ بندی کا کوئی امکان نہیں، اس لیے فلسطینیوں کے مصائب ختم ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ غزہ کی صورتحال ناقابل بیان ہے اور یہ عالمی برادری کی ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔غزہ کے لوگوں کو بار بار اپنی رہائش گاہ تبدیل کرنا پڑتی ہے لیکن عالمی شعور سمیت دنیا خاموش ہے جبکہ طاقتور قومیں اپنی اپنی پراکسی جنگوں میں مصروف ہیں۔ اسرائیل کی شدید بمباری کی وجہ سے غزہ شہر کھنڈر بن چکا ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کوئی مشکل کام نہیں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والی پانچ عالمی طاقتیں اسرائیل کو روکنے اور غزہ میں جنگ بندی روکنے کے لیے عملی فیصلے نہیں کر سکیں۔غزہ میں رہائشی عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ شہری بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے، حتیٰ کہ ہسپتالوں، سکولوں اور پناہ گزینوں کے کیمپوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق غزہ کے دو تہائی شہری بے گھر ہیں۔ اب ان لوگوں کی بحالی اور آبادکاری کے لیے برسوں کا عرصہ اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہوگی۔اس تباہی کے باوجود اسرائیل ابھی تک اپنی مستقل سلامتی کا ہدف حاصل نہیں کر سکا ہے۔ اسرائیل کی انتہا پسند قیادت کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے کیونکہ اس کا عزم ہے کہ جب تک اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے ساتھ معاملات حل نہیں کرتی، اسرائیل کی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ فلسطینیوں کی آزادی کی جدوجہد کو ختم کرنا ممکن نہیں اور نہ ہی اسرائیل فلسطینیوں کو ان کے علاقوں سے 100 فیصد بے دخل کر سکتا ہے۔ایک مستقل اور طویل مدتی امن معاہدہ اسرائیل کے لیے اس تنازعے سے نکلنے کا واحد اور باعزت طریقہ ہو سکتا ہے، لیکن اگر وہ غزہ پر بمباری اور دوبارہ قبضہ جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے تو یہ جنگ مزید پیچیدہ اور مہلک ہو سکتی ہے۔اسرائیل جنگ کی دھمکی دینے کے بجائے امن کی تلاش کرے۔ یہ راستہ غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسرائیلی افواج کے انخلاء کا راستہ ہے۔ یہ اسرائیلی رہنماؤں کی دور اندیشی اور امریکی صدر کی سفارت کاری کا امتحان ہوگا۔ فلسطینیوں کو انصاف فراہم کرکے ہی اس سرزمین پر امن قائم ہوسکتا ہے۔اقوام متحدہ، امریکہ، اسپین، فرانس، یورپی یونین، روس، چین، ایران، سعودی عرب، یو اے ای، او آئی سی، عرب لیگ اور دیگر ممالک کی حکومتیں فلسطینیوں کے قتل عام اور اسرائیل کی جارحیت پر افسوس کا اظہار کر رہی ہیں۔ شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ لیکن اصل مسئلہ غزہ میں جنگ بندی کا قیام ہے، باقی کام بعد میں کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت عالمی طاقتوں کی پہلی ترجیح غزہ میں جنگ بندی ہونی چاہیے تاکہ فلسطینیوں کی جانیں بچائی جا سکیں۔