“بہاولنگر واقعے کی تحقیقات کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کا نوٹیفکیشن سامنے آگیا۔”
نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ اسپیشل سیکریٹری داخلہ فضل الرحمان کو جے آئی ٹی کا کنوینر مقرر کیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق کمشنر بہاولپور نادر چٹھہ اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل اسپیشل برانچ فیصل راجہ بھی جے آئی ٹی کے رکن ہوں گے، آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کا ایک ایک نمائندہ بھی جے آئی ٹی میں شامل ہوگا۔قابل ذکر ہے کہ 10 اپریل کو سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز وائرل ہوئی تھیں، جن میں مبینہ طور پر بہاولنگر میں فوج کی وردی میں ملبوس افراد کو پولیس اہلکاروں کو مارتے ہوئے دکھایا گیا تھا، ایک ویڈیو میں ایک شخص کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ اس میں ایک آدمی اور دو فوجی اہلکار پولیس والوں کو ایک قطار میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتے ہوئے دکھایا گیا۔کچھ سوشل میڈیا صارفین نے دعویٰ کیا کہ یہ واقعہ اس وقت شروع ہوا جب پولیس نے ایک فوجی کے رشتہ دار سے غیر قانونی اسلحہ برآمد کیا۔وائرل ویڈیو کلپ پر سیاستدانوں نے غم و غصے کا اظہار کیا، جس میں پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر کا کہنا تھا کہ پنجاب پولیس کے سربراہ کو واقعے کے فوراً بعد مستعفی ہو جانا چاہیے تھا، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ صوبائی حکومت نے معاملے کو خراب طریقے سے ہینڈل کیا ہے، پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے کہا کہ واقعہ “شفافیت کا تقاضا کرتا ہے۔” جامع تحقیقات اور اس کی رپورٹ بغیر کسی ترمیم کے جاری کی جائے۔10 اپریل کی رات کو جاری ہونے والے ایک بیان میں پنجاب پولیس نے کہا کہ اس واقعے کو ایسے پیش کیا جا رہا ہے جیسے پاکستان آرمی اور پنجاب پولیس کے درمیان لڑائی ہو، دونوں ایجنسیوں نے مشترکہ تحقیقات شروع کر دیں۔ محکموں نے حقائق کا جائزہ لیا اور معاملہ خوش اسلوبی سے حل کیا۔اس میں کہا گیا کہ ‘پنجاب پولیس اور پاک فوج صوبے سے دہشت گردوں، شرپسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، ہم سوشل میڈیا صارفین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ پنجاب پولیس کا جھوٹا پروپیگنڈہ نہ پھیلائیں۔’ پاک فوج پنجاب پولیس زندہ باد۔