اسلامک یونیورسٹی :ڈاکٹر مختار کی مبینہ ریشہ دوانیاں ناکام، صدر تعیناتی کیلئے ڈاکٹر احمد کے نام کی منظوری

ڈاکٹر احمد بن سعد الاحمد کی تعیناتی: سعودی حکام کی مداخلت سے اہم فیصلہ

اسلام آباد (سپیشل رپورٹر) چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن اور ایکٹنگ ریکٹر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ڈاکٹر مختار کی مبینہ ریشہ دوانیاں اور سازشیں ناکام، صدر پاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کی ذاتی مداخلت کے بعد یونیورسٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز نے امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر احمد بن سعد الاحمد کے نام کی منظوری دیدی۔
روزنامہ بیٹھک نے 28 دسمبر کو پرو وائس چانسلر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد اور ریکٹر امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی ریاض سعودی عرب پروفیسر ڈاکٹر احمد بن سالم العامری کی سربراہی میں یونیورسٹی صدر کی تعیناتی کے لئے قائم عبوری کمیٹی کی جانب سے 27 دسمبر کو امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر احمد بن سعد الاحمد کے نام کی منظوری کی خبر شائع کی تھی جبکہ قبل ازیں بھی روزنامہ بیٹھک نے ہی سعودی حکام کی جانب سے ڈاکٹر احمد کی بطور صدر تعیناتی کی سفارش کی خبر شائع کی تھی۔ڈاکٹر احمد بن سعد الاحمد امام محمد بن سعود یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں انہوں نے دماغی صحت اور سائیکو تھراپی میں سپیشلائزیشن کر رکھی ہے۔
جبکہ ان کے پاس انتظامی معاملات کو چلانے کا تجربہ بھی ہے وہ امام یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس آفئیرز کے ڈین ہیں۔ ڈاکٹر احمد بن سعد الاحمد نے اپنی پی ایچ ڈی برطانیہ کی السٹر یونیورسٹی کے ڈاکٹر جولین لیسلی کے زیرنگرانی کی ہے اپنی انڈر گریجویٹ تعلیم کے دوران ڈاکٹر احمد نے دماغی امراض کے علاج میں مہارت رکھنے والے ریاض کے ایک ہسپتال میں چھ ماہ تک خدمات سرانجام دیں جبکہ بطور بچوں کے ماہر نفسیات گریجویشن کے بعد چھ سال ان بچوں کے لئے کام کیا جو گونگے بہرے اور ذہنی طور پر معذور تھے۔ ڈاکٹر احمد تین سال تک امام محمد ابن سعود یونیورسٹی میں مختلف ماڈیولز جیسے ایجوکیشنل، ڈویلپمنٹل اور کونسلنگ سائیکالوجی پڑھاتے رہے ہیں۔ڈاکٹر احمد اور ڈاکٹر جولین لیسلی نے فروری 2016 میں برطانیہ میں ہونے والی آٹھویں سعودی طلبا کانفرنس کے لئے “سعودی عرب میں بدسلوکی کے شکار بچوں کے ممکنہ نفسیاتی مسائل کا جائزہ” کے عنوان سے مشترکہ طور پر ایک سٹڈی بیسڈ مقالہ تحریر کیا تھا جس میں سعودی عرب میں بدسلوکی کے شکار بچوں پر نفسیاتی اثرات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس سٹڈی کے لئے ڈاکٹر احمد نے نو سعودی خاندانوں کے 29 بچوں اور ان کے آٹھ والدین یا سرپرستوں کے انٹرویو کئے گئے تھے ۔
بچوں سے دو سیشنز میں بات کی گئی تھی سٹڈی کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بچوں کو مختلف اقسام کی بے چینی (انزائٹی) کا سامنا تھا جس میں سرفہرست جنرلائزڈ اینزائٹی ڈس آرڈر کا مسئلہ تھا۔ بچوں میں جذباتی اور برتاؤ کے مسائل بھی درپیش تھے جن میں جارحانہ رویے اور بے چینی (انزائٹی) یا افسردگی (ڈپریشن) جیسے مسائل شامل تھے۔ تعلیمی اور تدریسی حلقوں نے ڈاکٹر احمد بن سعد الاحمد کی بطور صدر یونیورسٹی تعیناتی کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا ہے انہوں نے امید ظاہر کی کہ ڈاکٹر احمد اپنی تدریسی، تحقیقاتی، انتظامی اور بطور ماہر نفسیات صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یونیورسٹی کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں اپنا قائدانہ کردار ادا کریں گے۔
ذرائع کے مطابق یونیورسٹی پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے اور مستقل ریکٹر تعینات ہونے کے لئے ڈاکٹر مختار نے یونیورسٹی صدر کی تعیناتی میں تاخیری حربے اختیار کئے رکھے اور سعودیوں کو الجھائے رکھا جس پر سعودی حکام کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف کو صورتحال سے آگاہ کیا گیا جہنوں نے فوری طور پر بورڈ آف ٹرسٹیز کی میٹنگ بلا کر ڈاکٹر احمد کی تعیناتی کا حکم جاری کیا انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم کی جانب سے اس سلسلے میں صدر پاکستان آصف علی زرداری جو کہ جو کہ یونیورسٹی کے چانسلر اور پورڈ آف ٹرسٹیز کے سربراہ ہیں کو بھی ڈاکٹر احمد کی تعیناتی میں ریشہ دوانیوں سے آگاہ کیا جس پر صدر پاکستان کی سربراہی میں بورڈ آف ٹرسٹیز کا اجلاس ایوان صدر میں منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر مختار نے بطور ریکٹس یونیورسٹی اور چیئرمین ایچ ای سی اور وفاقی سیکرٹری فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ ڈاکٹر محی الدین وانی نے شرکت کی جبکہ دیگر کئی ممبران نے ویڈیو لنک کے ذریعے میٹنگ میں شرکت کی ۔
جس میں یونیورسٹی صدر کی تعیناتی کا ون پوائنٹ ایجنڈا شامل تھا۔انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر مختار نے نائب صدر عبد الرحمان کی مدد سے یونیورسٹی کے تمام معاملات کو اپنی مُٹھی میں کرنے اور سعودیوں کو اس بات پر قائل کرنے کے لئے کہ اسے یونیورسٹی کا مستقل ریکٹر بنایا جائے معاملے کو لٹکانے رکھا انہوں نے بتایا کہ روزنامہ بیٹھک کی مبنی بر حقیقت خبروں نے ڈاکٹر مختار کو بوکھلا کر رکھ دیا اور یونیورسٹی ترجمان کی جانب سے مخلتف فورمز پر واویلا کیا گیا کہ روزنامہ بیٹھک کی خبروں سے دو برادر اسلامی ملکوں کے تعلقات خراب ہو رہے ہیں جبکہ حقیقت میں روزنامہ بیٹھک ڈاکٹر مختار کی مبینہ ریشہ دوانیوں اور سعودی حکام کو ڈاکٹر احمد کی تعیناتی کے حوالے سے مبینہ طور بلیک میل کرنے کے عمل کو بے نقاب کرتا چلا آ رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے باز پرس اور ناراضگی کے اظہار کے بعد ڈاکٹر مختار اور منسٹری آف فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ نے ڈاکٹر احمد کی تعیناتی کے حوالے سے صدر مملکت کو بورڈ آف ٹرسٹیز کا اجلاس بلانے کی التجاء کی ان کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بغیر کسی قانون اور ضابطے کے یونیورسٹی ریکٹر ڈاکٹر ثمینہ ملک جو کہ باقاعدہ مسابقتی عمل کے ذریعے تعینات ہوئیں تھیں کو محض اس وجہ سے معطل کر دیا تھا کہ انہوں نے سابق چیف جسٹس کی خواہش اور دیگر ممبران کی خواہش کے برعکس بورڈ آف ٹرسٹیز کے منٹس جاری کر کے یونیورسٹی سابق سربراہ شرعیہ اکیڈمی ڈاکٹر مشتاق اور ان کے گروپ کی جھولی میں ڈالنے سے انکار کر دیا تھا ۔
جبکہ ڈاکٹر ثمینہ ملک ڈاکٹر مشتاق کی بطور اسسٹنٹ پروفیسر غیر قانونی بحالی کی راہ میں بھی روکاوٹ تھیں ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی معاملات کو درست سمت پر لانے کے لئے سعودی صدر کی تعیناتی اور معطل شدہ ریکٹر ڈاکٹر ثمینہ کی بحالی سے مشروط ہے جس میں سے ایک کام بورڈ آف ٹرسٹیز کے ذریعے صدر مملکت اور وزیراعظم کی مداخلت سے ہو چکا ہے اور ڈاکٹر احمد کو یونیورسٹی صدر تعینات کر دیا گیا ہے جس کا نوٹیفکیشن جلد جاری کر دیا جائے گا جبکہ دوسرا مرحلہ ابھی باقی ہے اور وہ ہے ڈاکٹر ثمینہ ملک کی بطور یونیورسٹی ریکٹر بحالی جس کے امکانات اب سعودی صدر کی تعیناتی کے بعد کافی روشن ہو گئے ہیں اس سلسلے میں روزنامہ بیٹھک نے جب ڈاکٹر مختار، ڈاکٹر مشتاق اور یونیورسٹی ترجمان کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا تو وہ رابطے میں نہ آ سکے۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں