سعودی سفیر کی مداخلت پر،نئے یونیورسٹی صدرتعیناتی نوٹیفکیشن اجراء میں ڈاکٹر مختار کے تاخیری حربے ناکام

سعودی صدر کی تعیناتی میں تاخیر: پس پردہ طاقتوں کا کردار

اسلام آباد (سپیشل رپورٹر) ایکٹنگ ریکٹر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ڈاکٹر مختار کی ایوان صدر میں تعینات اپنے ایک دوست افسر کی مدد سے مبینہ طور پر یونیورسٹی کے نئے سعودی صدر ڈاکٹر احمد بن سعد الاحمد کی تعیناتی کے نوٹیفیکیشن کو جاری کرنے میں تاخیری حربے کو سعودی سفیر نے ناکام بنا دیا ۔
ذرائع کے مطابق سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی، سابق ڈائریکٹر شریعہ اکیڈمی ڈاکٹر مشتاق اور وزارت فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ میں موجود اپنے بہی خواہوں کی مدد سے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کی خاتون ریکٹر ڈاکٹر ثمینہ ملک کو ہٹانے کے لئے بطور چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن منصوبہ بندی کے نتیجے میں ڈاکٹر مختار انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے قائم مقام ریکٹر بن گئے تو یونیورسٹی میں اپنی بطور ریکٹر مستقل تعیناتی کے لئے بارگینگ کے طور پر سعودیوں کا بازو مروڑنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب اپنے آپ کو مسلم امہ کا لیڈر تصور کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ شروع سے ہی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے معاملات میں بہت گہری دلچسپی رکھتا ہے یوں یونیورسٹی آرڈیننس کے تحت صدر مملکت جو کہ یونیورسٹی کے چانسلر ہیں اور پرو چانسلر تعینات کرنے کا اختیار رکھتے ہیں سعودی ماہر تعلیم کو یونیورسٹی کا پرو چانسلر تعینات کرتے چلے آ ہیں اور آج کل ریکٹر الامام محمد ابن سعود اسلامک یونیورسٹی ریاض ڈاکٹر احمد سالم محمد العامری، بطور پرو چانسلر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اسی طرح یونیورسٹی کے صدر کا عہدہ بھی سعودی اپنے پاس رکھتے ہیں جو انتظامی اور اختیارات کے لحاظ سے یونیورسٹی کا سب سے بڑا عہدہ ہے یونیورسٹی آرڈیننس کے مطابق یونیورسٹی صدر کی تعیناتی بورڈ آف ٹرسٹیز یونیورسٹی ریکٹر کی جانب سے بھیجے جانے والے تین ناموں کے پینل میں سے کرے گا انہوں نے بتایا کہ تمام صدور کی تعیناتی آرڈیننس میں درج کرئیٹیریا کے مطابق ریکٹر کی جانب سے بھیجے جانے والے تین ناموں میں سے ہوتی رہی ہے۔
تاہم اس بیچ یونیورسٹی کے اختیارات اور وسائل پر قبضے کے خواہشمند گروپ جسے قاضی فائز عیسی کی حمایت حاصل تھی نے ڈاکٹر مختار کی حمایت سے یونیورسٹی صدر کی تعیناتی مسابقتی عمل کے ذریعے کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا جسے بعد ازاں ڈاکتر مختار نے سعودیوں سے بارگینگ ٹول کے طور پر استعمال کیا کیونکہ قاضی فائز عیسی نے بطور چیف جسٹس یونیورسٹی صدر کی تعیناتی کے طریقہ کار میں تبدیلی کے لئے معاملہ پارلیمنٹ کو ریفر کرنے کی بجائے پارلیمنٹ کے اختیارات خود استعمال کرتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ کو ہدایت جاری کر دی کہ وہ صدر کی تعیناتی مسابقاتی عمل کے ذریعے کرے انہوں نے بتایا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ پر قاضی فائز عیسی کے غیر قانونی حکم کو ترجیح دیتے ہوئے ڈاکٹر مختار کی قیادت میں یونیورسٹی انتظامیہ نے سعودی صدر کی تعیناتی میں عدالتی حکم کا بہانہ بنا کر روکاوٹ ڈالنا شروع کر دی۔
جس کے پس پردہ صرف ایک ہی مقصد یعنی سعودیوں کی ڈاکٹر مختار کی بطور ریکٹر مستقل تعیناتی میں تائید حاصل کرنا تھی۔انہوں نے بتایا کہ سعودی حکام جولائی 2024 میں سابق صدر ڈاکٹر ہذال حمود العطیبی کی مدت پوری ہونے کے بعد ڈاکٹر احمد بن سعد الاحمد کا نام بطور یونیورسٹی کے نئے صدر کے تجویز کر چکے تھے تاہم ڈاکٹر مختار کی سربراہی میں یونیورسٹی انتظامیہ نے تاخیری حربے استعمال کرنا شروع کر دئیے اور بورڈ آف گورنرز کے ذریعے عدالتی احکامات پر عملدرآمد کی آڑ میں معاملے کو لٹکائے رکھا ۔
یہاں تک کہ سعودی حکام کو پاکستان میں اپنے سفیر نواف بن سعید احمد المالکی کے ذریعے مداخلت کرنی پڑی یوں 23 دسمبر کو بورڈ آف ٹرسٹیز کا اجلاس پرو چانسلر ڈاکٹر احمد سالم محمد العامری کی سربراہی میں امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی ریاض میں منعقد ہوا جہاں منصوبے کے تحت عدالتی احکامات کی آڑ میں معاملے کو لٹکانے کی کوشش کی گئی تاہم اس ضمن میں پرو چانسلر کی سربراہی میں ایک کیمٹی تشکیل دی گئی جس کا ایک ممبر ڈاکٹر مختار بھی تھا۔
انہوں نے بتایا کہ سعودی صدر کی تعیناتی میں ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ سعودی سفیر جو کہ بورڈ آف ٹرسٹیز کے ممبر نہیں ہیں نے ریاض میں ہونے والی اس میٹنگ میں شرکت کی جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سعودی حکام یونیورسٹی انتظامیہ کے تاخیری حربوں سے کس قدر نالاں تھےانہوں نے بتایا کہ سعودی عرب سے واپسی پر بھی معاملے کو لٹکائے رکھنے کی پالیسی جاری رہی یہاں تک کہ معاملہ وزیراعظم شہباز شریف اور صدر مملکت آصف علی زرداری کے علم میں لایا گیا۔
جس کے بعد اچانک سے ایک ای میل سرکولیٹ کی گئی جس میں صدر کے خواہشمند امیدواروں سے درخواستیں وصول کی گئیں پھر ایک فرضی سی شارٹ لسٹنگ کر کے انٹرویو کئے گئے اور معاملے کو پھر سرد خانے میں دالنے کی کوششیں جاری رکھی گئیں۔انہوں نے بتایا کہ اس بیچ وزیراعظم سعودی عرب گئے تو سعودی حکام کی جانب سے ان کے علم میں لایا گیا کہ تاحال سعودی صدر کی تعیناتی میں روڑے اتکائے جا رہے ہیں ۔
جس پر وزیراعظم کی جانب سے سخت پیغام اس ہدایت کے ساتھ بھجوایا گیا کہ فوری طور پر بورڈ آف ٹرسٹیز کی میٹنگ کرا کر ڈاکٹر احمد کی تعیناتی کی منظوری لی جائے جبکہ اس سلسلے میں وزیراعظم نے صدر آصف علی زرداری کو بھی اعتماد میں لیا۔انہوں نے بتایا کہ صدر کی سربراہی میں ہونے والی میٹنگ نے ڈاکٹر احمد کی تعیناتی کی منظوری دیدی تو بھی روڑے اٹکانے والے عناصر باز نہ آئے اور ڈاکٹر مختار نے ایوان صدر میں تعینات شکیل ملک نامی اپنے ایک دیرینہ افسر اور دوست کی مدد سے ڈاکٹر احمد کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے میں تاخیری حربے استعمال کرنا شروع کر دیئے۔
انہوں نے بتایا کہ اس بیچ صدر مملکت کراچی چلے گئے اور سعودی حکام کو بتایا گیا کہ صدر کی واپسی پر نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جائے گا مگر صدر زرداری بیماری کے سبب ہسپتال داخل ہو گئے انہوں نے بتایا کہ اس بیچ ایوان صدر کے حکام کو سعودی سفارتخانے کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا کہ سعودی سفیر نواف بن سعید احمد المالکی صدر زرداری کی تیمارداری کے لئے کراچی جانا چاہتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ سعودی سفیر نے صدر زرداری کی تیمارداری کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر احمد کے نوٹیفیکیشن کے جاری ہونے میں تاخیر پر بھی بات کی۔
تو صدر مملکت نے نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا حکم دیا۔انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر احمد بن سعد الاحمد ممکنہ طور پر اگلے ہفتے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیں گے اس سلسلے میں روزنامہ بیٹھک نے جب ڈاکٹر مختار، شکیل ملک اور سعودی سفارتخانے کے ترجمان کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا تو وہ رابطے میں نہ آ سکے جبکہ ترجمان یونیورسٹی ڈاکٹر عاصمہ منصور کی جانب سے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔

یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں