ای ایف ایس کا خاتمہ یا تسلسل؟ بجٹ 2025-26 کی حقیقت
ملتان ( رپورٹ: نسیم عثمان ) مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے کے دوران روئی کے بھاؤ میں نسبتاً ضرورت مند اسپنرز کوالٹی اور پیمنٹ کنڈیشن کے مطابق فی من 16500 تا 17500 روپے میں روئی کی خریداری کر رہے ہیں جنرز کے پاس اب محدود اسٹاک رہ گیا ہے ملز کوالٹی کے حساب سے خریداری کر رہے ہیں کاروباری حجم کم ہے کوالٹی بھی محدود ہے ٹیکسٹائل ملز کے بڑے گروپ روئی یارن اور کپڑا بھی درآمد کر رہے ہیں کیوں کہ کوالٹی بہتر ہے اور سب سے زیادہ فائدہ E F S کا ہے گو کہ کہا جا رہا تھا کہ آئندہ بجٹ میں E F S کا فیصلہ کیے جانے کا عندیہ دیا جا رہا تھا۔
لیکن گزشتہ دنوں ہونے والے سینٹ کے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ بجٹ میں E F S کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا اس کے متعلق رپورٹ کے مطابق حکومت ایکسپورٹ فیسیلیٹیشن اسکیم (EFS) کو بجٹ (2025-26) میں واپس نہیں لے گی۔
، اس کے باوجود معروف برآمدی انجمنوں اور مینوفیکچررز و ایکسپورٹرز نے پیر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے سامنے EFS کے خلاف شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ایک سوال کے جواب میں ایک سینئر سرکاری اہلکار نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ آئندہ وفاقی بجٹ میں ای ایف ایس کے خاتمے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اور محصولات کا اجلاس پیر کو سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوا جس میں آئندہ بجٹ کی تیاری کے سلسلے میں ملک بھر کی ایسوسی ایشنز سے مشاورت شروع کی گئی۔ میٹنگ میں ٹیکسٹائل، پولٹری، ڈیری، اسٹیل، پراپرٹی ڈویلپمنٹ اور کنزیومر گڈز سمیت بڑے شعبوں کی جانب سے پیش کردہ چیلنجز اور سفارشات پر توجہ مرکوز کی گئی۔
سندھ کے ساحلی شہروں میں بہت کم مقدار میں کپاس کی نئی فصل کی چنائی شروع ہونے سے روئی کے بھی ایڈوانس سودے شروع ہو گئے ہیں اور ملکی تاریخ میں پہلی بار پاکستان میں نیا کاٹن جننگ سیزن مئی کے پہلے ہفتے میں شروع ہونے کے روشن امکانات ظاہر کئے جا رہے ہیں جبکہ پاکستان میں کپاس کی نئی فصل سے تیار ہونے والی روئی کے ایڈوانس سودے شروع ہو گئے ہیں اور ابتدائی طور پر دس سے پندرہ مئی ڈیلوری کی بنیاد پر پنجاب کے شہروں بورے والا اور منڈی جہانیاں کی دو جننگ فیکٹریوں نے روئی کی چھ سو بیلز کے ایڈاونس سودے سترہ ہزار سے سترہ ہزار 300 روپے فی من میں فروخت کئے ہیں جبکہ ان فیکٹریوں نے کپاس سندھ کے ساحلی شہروں سے آٹھ ہزار 300 روپے سے آٹھ ہزار 500 روپے فی چالیس کلو گرام کے حساب سے خریدی ہے۔صوبۂ سندھ و پنجاب میں کوالٹی اور پیمنٹ کنڈیشن کے حساب سے روئی کا فی من بھاؤ 16500 تا 17500 روپے چل رہا ہے۔
کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ میں فی من 16700 روپے کے بھاؤ پر مستحکم رکھا۔کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کے بین الاقوامی کاٹن کے بھاؤ میں اتار چڑھاؤ کے بعد مجموئی طور پر استحکام رہا۔ نیو یارک کاٹن کے وعدے کا بھاؤ اتار چڑھاؤ کے بعد فی پاؤنڈ 66.50 تا 69.50 امریکن سینٹ کے درمیان رہا۔ USDA کی ہفتہ وار برآمد اور فروخت رپورٹ کے مطابق سال 2024-25 کیلئے 65 ہزار 800 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔
ویتنام 30 ہزار 500 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔ترکی 16 ہزار 200 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔انڈیا 9 ہزار 300 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔سال 2025-26 کیلئے 37 ہزار 400 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔میکسیکو 30 ہزار 700 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔انڈونیشیا 11 ہزار 500 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔پاکستان 2 ہزار 200 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔برامدات 3 لاکھ 94 ہزار 900 گانٹھوں کی ہوئی۔ویتنام 1 لاکھ 17 ہزار 300 گانٹھیں درآمد کرکے سرفہرست رہا۔پاکستان 88 ہزار 800 گانٹھیں درآمد کرکے دوسرے نمبر پر رہا۔ترکی 78 ہزار 500 گانٹھیں درآمد کرکے تیسرے نمبر پر رہا۔
دریں اثنا سیکرٹری زراعت پنجاب افتخار علی سوہو کی زیر صدارت ملتان میں کپاس کی کاشت کے بارے میں جائزہ اجلاس کا انعقاد پنجا۔ میں 22 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ پر کپاس کی کاشت ہوچکی صوبہ پنجاب میں 35 لاکھ ایکڑ رقبہ پر کپاس کی کاشت کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں اجلاس کے دوران آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (APTMA) نے تجویز پیش کی کہ یارن اور فیبرکس کو EFS سے خارج کر دیا جائے۔ کپڑے اور سوت کو EFS کی منفی فہرست میں شامل کیا جانا چاہیے۔
EFS کے تحت گھریلو سپلائی چین پر پابندی ہے۔اپٹما نے تجویز پیش کی کہ گھریلو صنعت کے خاتمے سے بچنے کے لیے سوت اور کپڑے کو عام ٹیکس نظام میں لایا جائے۔اپٹما نے مزید کہا کہ بجٹ میں ایڈوانس ٹیکس کو موجودہ 2.25 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کیا جائے۔علاوہ ازیں آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (APTMA) کے چیئرمین کامران ارشد نے خبردار کیا کہ ٹیکسٹائل کی برآمدات دو سال سے جمود کا شکار ہیں۔
انہوں نے صنعت کو تباہی کی طرف دھکیلنے کے لیے EFS اسکیم کو تنقید کا نشانہ بنایا، مقامی کپاس پر 18% سیلز ٹیکس کے نفاذ اور غیر ملکی کپاس کی ڈیوٹی فری درآمد جیسے مسائل کو اجاگر کیا۔ اپٹما نے سوت اور کپڑے کو منفی فہرست میں رکھنے، بجلی کے نرخ 9 سینٹ فی یونٹ مقرر کرنے اور ایڈوانس ٹیکس کی شرح کو 2.5 فیصد سے کم کرکے 1 فیصد کرنے کی سفارش کی۔ ایسوسی ایشن نے بتایا کہ 120 سپننگ ملز اور 800 جننگ فیکٹریاں پہلے ہی بند ہو چکی ہیں، اور ٹیکسٹائل کی برآمدات گزشتہ دو سالوں میں 16.5% اور 16.7% پر جمود کا شکار ہیں۔مزید برآں الیکٹرانک میڈیا پر شائع ہونے والی رپورٹس سے کراچی کاٹن ایسوسی ایشن سمجھتی ہے کہ APTMA اور PCGA مشترکہ طور پر قومی کاٹن پالیسی کا مسودہ تیار کرنے، خام کپاس کی فروخت/خریداری کے معاہدے کی شکل اور ملک میں کپاس کی بحالی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔کے سی اے ملک میں کپاس کی بحالی کے لیے تمام متعلقہ افراد کی کوششوں کو سراہتا ہے۔
یاد رہے کہ کے سی اے کپاس کی معیشت کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مدعو کر رہا ہے، کیونکہ ملک میں کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے حکومت کی طرف سے مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنے کی کوششیں کرنے کے لیے کافی وقت آنے والا ہے تاکہ مقامی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کیا جا سکے اور قیمتی زرمبادلہ کمانے کے لیے برآمدات کے لیے سرپلس چھوڑ دیا جائے اور کے سی اے کو بیرون ملک سے ملنے والے غیر ملکی زرمبادلہ کو بچانے کے لیے کپاس کی درآمد سے گریز کیا جا سکے۔
نامعلوم وجوہات کی بنا پر کاٹن ٹریڈ کے دیگر اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے مثبت ردعمل۔کے سی اے نے بار بار حکومت پر زور دیا کہ وہ کپاس کی کوالٹی کو بہتر بنانے، روئی کی گٹھری کی پیکنگ اور 170 کلو گرام روئی کی گٹھری کے معیاری وزن کی پیداوار کو یقینی بنانے کے لیے تمام روئی کی تجارت اور صنعت کے فائدے کے لیے ضروری اقدامات کرے۔کراچی کاٹن ایسوسی ایشن KCA سمجھتا ہے کہ کپاس کے برآمد کنندگان دوسرے خریدار ہونے کے ناطے کاٹن مارکیٹ کو مستحکم کرنے اور کپاس کے کاشتکاروں کے مفادات کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
KCA یہ بھی سمجھتا ہے کہ حکومت کی طرف سے کسی بھی قومی کاٹن پالیسی کو کپاس کی معیشت کے تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول کراچی کاٹن ایسوسی ایشن، پاکستان میں کاٹن ٹریڈ کی پریمیئر باڈی سے مشاورت کے بعد منظور کیا جانا چاہیے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کے سی اے نے کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کے بائی لاز کے تحت، خریدار اور بیچنے والے کے درمیان کسی تنازعہ کی صورت میں ثالثی کا اختیار فراہم کرتے ہوئے چند سال قبل خام روئی کی مقامی فروخت/خریداری کے معاہدے کا مسودہ تیار کیا تھا اور اسے منظوری کے لیے اپٹما اور پی سی جی اے کو بھجوایا تھا۔
پی سی جی اے نے اس سلسلے میں اپنی منظوری دے دی لیکن اپٹما کی جانب سے خام کپاس کی مقامی فروخت/خریداری کے معاہدے کے مسودے کی منظوری ابھی تک موصول نہیں ہوئی۔ کے سی اے کا خیال ہے کہ خام کپاس کی مقامی فروخت / خریداری کے معاہدے کا مسودہ وسیع کوششوں اور کے سی اے اور پی سی جی اے کی منظوری کے بعد تیار کیا گیا تھا۔ ایسی صورت حال میں، APTMA کو KCA کی طرف سے تیار کردہ خام کپاس کی مقامی فروخت/خریداری کے معاہدے کے مسودے پر بھی غور/منظور کرنا چاہیے اور خام کپاس کی مقامی فروخت/خریداری کے معاہدے کے نئے مسودے کو تیار کرنے کے لیے وقت طلب مشق سے گریز کرنا چاہیے۔
کے سی اے حکومت پر زور دیتا ہے کہ وہ کراچی کاٹن ایسوسی ایشن سمیت کاٹن ٹریڈ کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے کسی بھی قومی کاٹن پالیسی کو حتمی شکل دے / منظور کرے۔ کے سی اے حکومت سے کپاس کی پیداوار بڑھانے، کپاس کی کوالٹی کو بہتر بنانے، کپاس کی گٹھری کی پیکنگ اور 170 کلو گرام روئی کی معیاری گٹھری کی پیداوار کو بھی یقینی بنائے تاکہ پوری روئی کی تجارت اور صنعت کے فائدے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔کپاس کی مارکیٹنگ میں معیار کا کردار بہت اہم ہے، کیونکہ یہ ملکی اور بین الاقوامی دونوں منڈیوں میں کپاس کی قیمت، طلب اور مسابقت کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔اچھی کوالٹی کاٹن پریمیم منڈیوں تک کھلی رسائی ہے جبکہ خراب کوالٹی خریداروں کو محدود کرتی ہے یا چھوٹ کا باعث بنتی ہے۔
فائبر کی لمبائی، مضبوطی، نفاست اور صفائی پر مبنی اعلیٰ معیار کی روئی کی ہمیشہ اچھی مانگ ہوتی ہے۔ اسپنرز اور ٹیکسٹائل ملز اعلیٰ کوالٹی کی روئی کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اس سے پروسیسنگ کے مسائل کم ہوتے ہیں، کم فضلہ اور بہتر حتمی پیداوار ہوتی ہے۔ معیار کے پیرامیٹرز اکثر ٹریس ایبلٹی سسٹمز اور سرٹیفیکیشنز سے منسلک ہوتے ہیں جو عالمی مارکیٹ میں تیزی سے اہم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں کمی کے ساتھ ساتھ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کپاس کا معیار بھی خراب ہوا۔
ناقص معیار، غیر منصفانہ حکومتی پالیسیاں، زیادہ بوائی لاگت مقامی کپاس کو غیر مسابقتی بناتی ہے۔ اس لیے ٹیکسٹائل کی صنعت نے امریکہ، برازیل وغیرہ جیسے دیگر ماخذ خریدنے کو ترجیح دی، بالآخر کم پیداوار کے باوجود مقامی کپاس کی مانگ میں بتدریج کمی آئی۔ کپاس کا نیا سیزن 2025/26 جننگ آپریشن جلد ہی شروع ہونے والا ہے، تقریباً 0.3 ملین گانٹھوں کا اسٹاک جنرز کے پاس ابھی تک بغیر فروخت کے پڑا ہے، اسپنرز اپنی پوزیشن کو درآمد شدہ روئی سے ڈھانپ رہے ہیں۔
ہمارا جننگ سیزن ضرورت سے زیادہ نمی کے ساتھ شروع ہوتا ہے، آگے بڑھتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں بھی، کپاس کی قیمت نہ صرف مہنگی ہوتی ہے بلکہ سوت کے معیار کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔کپاس کے نامور تجزیہ نگار نسیم عثمان سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے ساجد محمود سربراہ شعبہ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان نے بتایا کہ پنجاب میں سال 2025-26 کے لیے 35 لاکھ ایکڑ کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، جس میں سے یکم مئی تک 14.88 لاکھ ایکڑ پر کاشت مکمل ہو چکی ہے، جو کہ ہدف کا 43 فیصد ہے۔ جنوبی پنجاب کے ڈویژنز میں کارکردگی متفرق رہی۔جنوبی پنجاب کے کپاس کے کاشتہ مختلف اضلاع میں ملتان، خانیوال، وہاڑی، لودھراں، بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان، لیہ اور مظفرگڑھ شامل ہیں، جن میں ملتان نے 63 فیصد، ڈیرہ غازی خان نے 50 فیصد اور بہاولپور نے صرف 29 فیصد ہدف حاصل کیا۔
شمالی پنجاب میں نسبتاً بہتر پیش رفت دیکھنے میں آئی اور 51 فیصد ہدف حاصل کیا گیا، جہاں فیصل آباد نے سب سے نمایاں کارکردگی دکھائی۔ سندھ میں کپاس کی کاشت کے اعدادوشمار سے متعلق ساجد محمود کا کہنا تھا کہ 30 اپریل تک 15.56 لاکھ ایکڑ کے ہدف کے مقابلے میں صرف 4.15 لاکھ ایکڑ پر کاشت ممکن ہو سکی ہے، جو کل ہدف کا 26.71 فیصد بنتا ہے۔ اپر سندھ کے کپاس پیدا کرنے والے اضلاع میں سکھر، گھوٹکی، خیرپور، نوشہرو فیروز اور قمبر شہداد کوٹ شامل ہیں۔
، جہاں اس سال 16 فیصد کمی دیکھی گئی۔ سنٹرل سندھ کے اضلاع حیدرآباد، مٹیاری، ٹنڈو محمد خان اور ٹنڈو الہ یار میں 81 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، جبکہ لوئر سندھ کے اہم اضلاع عمرکوٹ، میرپورخاص، بدین اور ٹھٹھہ میں 67 فیصد کمی سامنے آئی۔ساجد محمود نے کہا کہ فیڈرل کمیٹی آف ایگریکلچر نے رواں برس 2025-26 میں کپاس کا پیداواری ہدف 10.18 ملین گانٹھیں رکھا ہے جبکہ دوسری جانب کپاس کی بحالی اور ترقی کے لیے درپیش چیلنجز گہرے اور ہمہ گیر نوعیت کے ہیں جنہیں حل کیے بغیر اس اہم فصل کا فروغ ممکن نظر نہیں آتا۔ ساجد محمود کا کہنا تھا کہ سندھ میں پانی کی شدید قلت نے کاشتکاروں کو متبادل فصلات کی طرف مائل کر دیا ہے، ۔
جبکہ مقامی کپاس اور اس سے بنی مصنوعات پر 18 فیصد جی ایس ٹی کا نفاذ اس شعبے کو مزید نقصان پہنچا رہا ہے۔ ایکسپورٹ فسیلیٹیشن اسکیم (EFS) کے تحت ڈیوٹی فری درآمدی کپاس کی اجازت نے مقامی کاشتکاروں کو غیر منصفانہ مسابقت کا شکار بنا دیا ہے۔ پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی (PCCC) کو درکار ریسرچ فنڈز کی کمی اور تحقیقی عملے کی شدید قلت، جو محض 28 فیصد رہ گئی ہے، نے تحقیق و ترقی کے عمل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
کپاس کی امدادی قیمت کا بروقت تعین نہ ہونا، مارکیٹ میں مڈل مین کی اجارہ داری، اور دیگر مسابقتی فصلات کے مقابلے میں کپاس کا کم منافع بخش ہونا، کاشتکاروں کے اعتماد کو مزید کمزور کر رہا ہے۔ ان تمام مسائل کا جامع اور پالیسی سطح پر حل ناگزیر ہے تاکہ پاکستان میں کپاس کی بحالی کو ممکن بنایا جا سکے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں